یہ سوال اِک دردِ سر ہے مستقل
کیا ہے یہ دنیا، یہ بزمِ آب و گِل
کوئی کہتا ہے دُکھوں کا گھر اِسے
کوستا ہے رات بھر، دن بھر اِسے
کوئی کہتا ہے اِسے خوشیوں کا باغ
پُرسکوں رکھتا ہے اعصاب و دماغ
ظلمتیں بھی ہیں یہاں انوار بھی
پھول بھی ہیں ٹہنیوں پر خار بھی
سعد و نحس و خوشگوار و ناگوار
ساعتیں رہتی ہیں ذہنوں پر سوار
مرد ہو، زن ہو، جواں ہو یا مُسن
ہے اگر سینے میں قلبِ مطمئن
خود کو رکھ سکتے ہیں سب حسبِ مراد
بیدل و بیزار یا مسرور و شاد
عید کیا ہے، عید صرف احساس ہے
ایک امنگ ایک آرزو ایک آس ہے