• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کہنا سو فیصد درست نہیں ہوگا کہ قوم الیکشن کے بخار میں مبتلا ہے دو طبقوں کو انتخاب یا امیدواروں سے کوئی دلچسپی نہیں، پہلا طبقہ پڑھے لکھے ان شہریوں کا ہے جن کا براہ راست اراکین اسمبلیوں سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ووٹ ڈالتے ہوئے بھی ہچکچاتے ہیں،کمیشن کسی کو مجبور نہیں کر سکتا کیونکہ جبراً ووٹ ڈلوانا بھی جائز نہیں۔ دوسرے وہ دیہاتی جو ایک جاگیردار، سردار یا وڈیرے کے زیراثر ہوتے ہیں اور کسی دوسرے امیدوار کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ دوسری جانب اس الیکشن کی اہمیت کی وجہ سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی دلچسپی لی جا رہی ہے۔ خود ساختہ جلاوطنی سے بااثر لوگ واپس آ کر اس الیکشن میں حصہ لینے کے خواہشمند نظر آ رہے ہیں۔ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم، بلوچستان کے سردار اختر جان مینگل، سردار خان محمد ڈاہری، صاحب زادہ طلال بگٹی بعض شرائط کے تحت اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف جن پر عدالت میں جوتا اچھالا گیا جو خلاف تہذیب تھا۔ اسی ذیل میں ایک خوشخبری یہ ہے کہ محسن الملک ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ ترک کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب ایک سیدھے سادے سائنس دان ہیں وہ سیاست اور بیشتر سیاست دانوں کی چال بازیوں سے ناواقف ہیں اگر خدانخواستہ الیکشن میں حصہ لیتے اور ہار جاتے تو بڑی سبکی ہوتی۔
الیکشن کا پہلا مرحلہ31مارچ کو مکمل ہوگیا جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے دس ہزار سے زائد کاغذات نامزدگی داخل کر دیئے گئے۔ گو یہ خود تاریخی تعداد ہے مگر لوگوں کا خیال ہے کہ دہری شہریت، جعلی ڈگریوں کے خلاف کارروائی، واجب ٹیکسوں کی عدم ادائیگی، بیوی بچوں کے ذرائع آمدنی کی تفصیل کے انکشاف کے خوف سے کم کاغذات نامزدگی داخل ہوئے۔ کہاں کا خوف اور کس کا ڈر قلم آپ کے ہاتھ میں ہے جو جی چاہے لکھ دیجئے۔ سینیٹ کی ایک رکن خاتون جن کی رہائش کراچی کے سب سے بڑے پوش علاقے میں ہے نے اپنے بنگلے کی قیمت چار لاکھ روپے لکھی ہے، اخبار کے ایک قاری کا فون آیا کہ ”میں اس کی قیمت 25/24 لاکھ یا اس سے بھی زائد دینے کے لئے تیار ہوں آپ محترمہ سے یہ ڈیل کرا دیں وہ ایسے چار پانچ بنگلے خرید کر ایک میں خود رہیں اور باقی کو کرایہ پر دے دیں“۔ (میں نے معذرت کر لی)۔ سابق اراکین کے اثاثوں کی فہرست شائع ہو چکی ہے۔ ان میں بعض ارب پتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس جائیداد کو بناتے ہوئے اس پر ٹیکس وغیرہ ادا کئے گئے تھے۔ ٹیلیفون اور سرکاری رہائش گاہوں کے بقایاجات کی فہرست شائع ہو چکی ہے، کمیشن نے اعلان تو کیا ہے کہ امیدواروں کی بڑی بے رحمانہ پڑتال ہوگی کیا حقیقت میں ایسا ممکن ہوگا جبکہ اس میں بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں۔ کیا بات صرف اعلان تک محدود رہے گی؟
جہاں تک دس ہزار امیدواروں کا تعلق ہے اس میں سارے داخل کنندہ سنجیدہ نہیں ہیں کچھ نے اپنا جھگڑا چکانے کے لئے مدمقابل کے خلاف فارم داخل کیا ہے۔ کہیں کسی معزز شخصیت کو رسوا کرنے کے لئے فارم داخل کرایا گیا جیسے کہ وزیراعلیٰ سندھ کے بدمقابل کسی خواجہ سرا کا فارم، کہیں شہرت حاصل کرنا مقصود ہے اور کہیں منافع خوری کے لئے کہ مدمقابل سے سوا ڈیڑھ لاکھ کی رقم اینٹھ کر اس کی حمایت میں بیٹھ جایا جائے۔ حتمی تعداد 19/اپریل تک معلوم ہوگی۔انتخاب کی تاریخ تو11مئی مقرر ہوگئی ہے مگر ابھی45لاکھ غیرملکوں میں مقیم پاکستانیوں کی رائے دہندگی کا مسئلہ طے نہیں ہوا، کہا جاتا ہے کہ ان کی پولنگ تو پاکستانی سفارت خانوں میں ہوگی مگر متعلقہ حکومتوں بالخصوص ایسی حکومتوں سے جہاں جمہوریت نہیں، اجازت درکار ہوگی۔ کمیشن خود اپنے فیصلے بدل دیتا ہے یا ان کو نظرانداز کر دیتا ہے مثلاً کمیشن نے پہلے فیصلہ کیا کہ کاغذات نامزدگی کی نقول نہیں دی جائے گی اس لحاظ سے تو یہ فیصلہ اچھا تھا کہ دن بھر اعتراضات کی بھرمار ہوگی اور یوں الیکشن کی تاریخ متاثر ہونے کا اندیشہ ہے مگر اس کا یہ فائدہ بھی تھا کہ اس طرح کمیشن کو امیدواروں کی خامیوں کا علم ہو جاتا پھر10ہزار روپیہ فیس ادا کر کے نقول حاصل کرنے کی اجازت دے دی مگر اب بھی ریٹرنگ آفیسر نقول دینے سے انکار کر رہے ہیں یا امیدوار نامزدگی کے فارم جمع کرانے کے لئے جلوس کی شکل میں نہ آئیں جبکہ بیشتر امیدوار حمایتیوں کے نرغے میں آتے ہیں اور ایک صاحب گدھے پر پھول ڈال کر تشریف لائے مگر ان سے باز پرس نہیں ہوئی یا اسلحہ کی نمائش ممنوع قرار دی جبکہ پختونوں اور بلوچوں کا یہ قومی نشان ہے۔کمیشن نے کراچی کے11حلقوں (قومی 3، صوبائی 8) کی حدبندی میں تبدیلی کی۔ ایک سیاسی پارٹی کو اس پر تحفظات ہیں۔ اس کی طرف سے عدالت میں جانے بلکہ اقوام متحدہ تک جانے کی دھمکی دی گئی اس کا فیصلہ جلد نہ ہوا تو ان علاقوں میں انتخاب رک جائے گا۔افراد سیاسی پارٹیاں تبدیل کر رہے ہیں، خود پارٹیوں میں جوڑ توڑ ہوا ہے، دعوے کئے جا رہے کہ ہم سو نشستیں جیت لیں گے تو پھر ان کی حکومت ہی ہو گی۔ بعض قطعی دعوے کر رہے ہیں کہ آئندہ ہماری حکومت ہوگی ایسے قطعی دعوؤں سے گریز بہتر ہے جلسے جلوسوں کا نہ صرف زور ہے بلکہ ان میں مسابقت ہو رہی ہے مگر نجی معاملات کو اچھالنے اور ماضی بعید کے واقعات کے ذکر سے پرہیز کرنا بہتر ہوگا۔انتخاب کی کامیابی کا فیصلہ جلسوں میں افراد کی کثیر شرکت یا منشور سے نہیں کیا جا سکتا، منشور تو 90فیصد ووٹر پڑھتے ہی نہیں اور نہ منشور میں ایسے وعدے کئے جائیں جو ممکن نہ ہو سکیں مثلاً چھ ماہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ یا دو سال میں شرح خواندگی کو سو فیصد کر دینا۔
نگراں حکومت کو بھی اپنی توجہ صاف و شفاف انتخابات پر مرکوز کرنا چاہئے، بجٹ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ بجٹ تو نئی حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ نگراں حکومت اگر ملک میں امن و امان قائم کر دے تو اس کا سب سے بڑا کارنامہ ہوگا اور اس کی بدولت وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ اسلحہ کے نئے لائسنس بند اور پرانے اسلحہ چار مہینوں کے لئے سرکاری اسلحہ خانوں یا تھانوں میں جمع کرانے سے بڑا فرق نظر آئے گا، اس مسئلے پر غور کیا جائے۔
تازہ ترین