• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست اور فکر سے لاکھ اختلافات کے باوجود ہر ایک ان کی صلاحیت، اہلیت، قابلیت اور سیاسی وژن کا معترف ہے۔ جناب بھٹو نے ایسے کٹھن وقت ملک کی باگ دوڑ سنبھالی جب ملک اپنی تاریخ کیبدترین دور سے گزر رہا تھا۔ 90 ہزار فوجی بھارتی قید میں تھے۔ ایک انتہائی تکلیف دہ گھناؤنی سازش کے تحت ملک کو جبراً دو نیم کر دیا گیا تھا۔ ملک کا خزانہ تو خالی ہی تھا اور قوم تھی کہ شدید اضطراب، مایوسی کا شکار تھی۔ یہ بھٹو صاحب کی عزم و ہمت ہی تھی جنہوں نے دن رات ایک کر کے ملک کو سنبھالا دیا اور قوم کو مایوسی سے نجات دلائی۔ 90 ہزار قیدی واپس لائے لیکن ”ان دیکھے ہاتھ“ تھے جو ان کے خلاف مسلسل مصروف عمل رہے۔ 1977ء میں عام انتخابات کے بعد انتقال اقتدار کے بجائے اس سازش کے تحت جمہوریت ختم کر کے ملک کو مارشل لاء کے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوا اس حوالے سے تاریخ کے بہت سے اوراق ابھی تک ایک راز ہیں لیکن یہ بات پکی ہے اور جناب بھٹو کا یقین تھا کہ ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کے جرم میں انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا جائے گا۔ جب لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس صمدانی نے انہیں ضمانت پر رہا کر دیا تو عدالت سے نکلنے کے بعد جناب بھٹو نے کہا کہ غیر ملکی پریس کو نواب صادق کی کوٹھی پر لے آؤچنانچہ ملک حاکمین خان نے غیر ملکی صحافیوں کو شادمان کالونی میں نواب صادق قریشی کی اقامت گاہ پہنچانے کا اہتمام کیا۔ مرحوم نثار احمد عثمانی نے راقم الحروف سے کہا کہ ”آؤ ہم بھی چلتے ہیں۔“ کوٹھی کے باہر بہت سے ملکی صحافی موجود تھے اور محترمہ نصرت بھٹو ملکی پریس کے رویہ پر ان سے ناراضگی کا اظہار کر رہی تھیں ایک آدھ نوجوان صحافیوں نے ان سے بحث کرنی چاہی… تو نثار عثمانی نے ان کو سمجھایا کہ بیگم صاحبہ کو ایسا کرنے کا حق ہے۔ غیر ملکی صحافیوں کو نیچے ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا تھا۔ جبکہ ملکی صحافیوں کو اجازت نہیں دی گئی جس جگہ جناب بھٹو کی گاڑی آ کر رکی میں اور عثمانی صاحب اس کے قریب کھڑے تھے ہمیں دیکھ کر فرمایا کہ ”آپ آ جائیں“ ملک حاکمین خان نے فوراً ہمیں راستہ دے دیا کمرے میں ایک چھوٹا سا اسٹیج بنایا گیا تھا غیر ملکی صحافی سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ دائیں جانب چند کرسیاں رکھیں تھیں میں اور عثمانی صاحب ان پر بیٹھ گئے۔ غیر ملکی صحافیوں نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ بھٹو صاحب ان کا جواب دے رہے تھے۔ ایک برطانوی صحافی نے سوال کیا کہ ”جناب والا آپ کے خیال میں آپ کا انجام (Fate) کیا ہو گا۔ بھٹو صاحب نے عثمانی صاحب اور میری طرف دیکھا اور اردو میں پوچھا کہ ایٹمی پروسیسنگ پلانٹ کا کیا بنا (بھٹو حکومت نے اپنے دور میں فرانس سے ایٹمی پلانٹ خریدنے کا معاہدہ کیا تھا) ہم نے کہا کہ یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ بھٹو صاحب نے سوال کرنے والے صحافی کی طرف دیکھا اور کہا کہ ”میں اور اندرا گاندھی ایک ہی سازش کا شکار ہیں۔ فرق صرف یہ ہے
"She is Faceing Murarji Desai and I am Faceing Guns"
جب سپریم کورٹ نے اکثریت سے پھانسی کی سزا دی تو صرف دو سیاستدانوں کے سوا کسی نے اس کی حمایت نہیں کی اور وہ دو ملکوں کے علاوہ تمام حکومتوں نے ان کی رہائی کی اپیل کی۔ عوامی سطح پر احتجاج کیا گیا اور رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ سلطان زید بن النہان جناب بھٹو کی گرفتاری اور مقدمات پر بڑے برہم تھے اور تلور کا شکار کھیلنے کے لئے بھارتی راجستھان جا پہنچے۔ ان کو لاکھ جتن کر کے منایا گیا… یہ واقعہ مجھے چودھری ظہور الٰہی نے سنایا کہ لاہور کے گورنر ہاؤس میں معزز مہمان کے اعزاز میں صدر مملکت کی جانب سے عشائیہ تھا۔ کھانے کے بعد سلطان زید بن النہان نے صدر ضیاء سے علیحدگی میں بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا چنانچہ یہ دونوں کافی لاؤنج میں چلے گئے۔ چودھری صاحب کا کہنا ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ معزز مہمان نے صدر سے کہا کہ آپ کے علم میں ہے کہ میرے بھٹو صاحب سے قریبی تعلقات ہیں۔ ان کی وجہ سے اگر ملک کو کوئی مالی نقصان ہوا ہے تو میں ادا کرنے کو تیار ہوں۔ اگر آپ کو خدشہ ہے کہ بھٹو صاحب رہائی کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے تو آپ انہیں رہا کر دیں۔ میں ان کو اپنے ساتھ ابھی ابو ظہبی لے جاتا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر ضیاء کا جواب تھا کہ بھٹو صاحب نے اگر ملک کا نقصان کیا ہوتا یا میری ذات کی بات ہوتی تو میں درگزر کرنے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن انہوں نے قتل کیا ہے اور اسے خدا بھی معاف نہیں کرتا… چودھری صاحب کا کہنا تھا کہ یہ سننا تھا کہ سلطان زید بن النہان غصہ میں آ کر کھڑے ہو گئے اور کافی پیئے بغیر تیزی سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے اور گورنر ہاؤس سے سیدھے ایئر پورٹ روانہ ہو گئے جہاں سے واپس چلے گئے۔قبلہ صوفی نذیر مدینہ منورہ کی ایک انتہائی قابل احترام روحانی شخصیت ہیں انہیں ایک مدت روضہ مقدس کی خاکروبی کا شرف و اعزاز حاصل رہا ہے۔ پاکستان کی ممتاز شخصیات جن میں مرحوم میاں شریف، مرحوم بھٹو صاحب، محترمہ بی بی شہید، صدر زرداری، چودھری شجاعت، چودھری پرویز الٰہی، میر ظفر اللہ جمالی ان کے عقیدت مند ہیں اور یہ شخصیات ان کی خدمت میں حاضر ہوتی رہی ہیں۔ میں بھی ان میں شامل ہوں۔ صوفی صاحب قبلہ نے مجھے بتایا کہ ضیاء الحق کو بعد میں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ بھٹو شہید کو پھانسی دے کر ان سے بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھٹو شہید کی پھانسی کے بعد مدینہ منورہ میں صدر ضیاء الحق ان سے ملنے ان کی اقامت گاہ پر آئے اور دعا کرنے کے لئے کہا۔ صوفی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے بھٹو صاحب کو پھانسی کیوں دی… وہ بہت اچھے شخص تھے۔ قانون کے تحت آپ ان کی سزا ختم کر سکتے تھے۔ اور اب یہ ظلم ہے کہ ان کی اہلیہ محترمہ اور بیٹی کو قید کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر ضیاء نے اعتراف کیا کہ ان سے غلطی ہو گئی ہے اور وعدہ کیا کہ وہ بیگم صاحبہ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلد رہا کر دیں گے اور آخر میں یہ واقعہ کہ 9/ اپریل 1977ء کو لاہور گورنر ہاؤس میں بھٹو صاحب نے نیوز کانفرنس سے خطاب کیا۔ یہ وہی پریس کانفرنس ہے جس میں سردار شوکت حیات کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا گیا اس سوال پر کہ اگر فوجی جرنیلوں نے ان کی حکومت کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو ان کا ردعمل کیا ہو گا جناب بھٹو نے میز پر مکا مارتے ہوئے کہا کہ ”میں انہیں شوکت حیات بنا دوں گا۔“ میں اور عارف نظامی پہلی قطار میں بیٹھے تھے۔ کانفرنس کے بعد ان کے سامنے سے گزرے تو علیک سلیک ہوئی اس وقت جناب بھٹو سگار پی رہے تھے اور رومیو جیولیٹ سگار کا ڈبہ ان کے سامنے رکھا ہوا تھا۔ ڈبہ میرے آگے کر دیا۔ میں نے ایک سگار اٹھا لیا تو کہا کہ ”اور لے لو“ میں نے پانچ سگار نکال لئے۔ رات کو جاوید ہاشمی صاحب میرے پاس آئے اور مجھے چھوڑنے گھر گئے۔ میں نے سگار ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ دو سگار مجھے دے دیں۔ میں نے کہا کہ مجھے اعتراض نہیں ہے لیکن یہ سگار مجھے آپ کے بدترین سیاسی مخالف جناب بھٹو نے دیئے ہیں تو جاوید ہاشمی یہ کہہ کر دو سگار لے گئے کہ میں نے تو آپ سے لئے ہیں۔ مجھے کیا معلوم کہ یہ بھٹو صاحب نے آپ کو دیئے ہیں۔“ جنرل ضیاء نے بھٹو صاحب کو پھانسی دے کر شہید تو کر دیا لیکن تاریخ نے اس فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا کہ وہ اور ان کی فکر آج بھی زندہ و تابندہ ہے!!
تازہ ترین