• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمسایوں سے بگاڑنے والا بھارت بین الطرفین چیلنجز سے دوچار

اسلام آباد(نمائندہ جنگ)عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ تازہ ترین سرحدی کشیدگی اور بھارت چین سرحد پر دونوں ممالک کی افواج آمنے سامنے آتے ہی تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاملات بگاڑنے والا بھارت اب خود ہی بین الطرفین چیلنجز سے دوچار ہو گیا ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، مشیر قومی سلامتی اجیت ڈووال اور بھارتی فوج کے چیف آف ڈیفنس سٹاف بپن روات بھی دم بخود اور پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھارت چین سرحدی کشیدگی کا ہنگامہ برپا ہونے کے باوجود بھی بھارتی سول اور ملٹری قیادت عجیب و غریب مصلحت پسندی کا شکار ہوکر بھارت کا سرکاری موقف پیش کرنے سے بھی گریز کر رہی ہے جبکہ بھارتی میڈیا چیخ رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ دوسرا سانحہ کارگل ہو چکا ہے اور بھارت اپنے سینکڑوں مربع کلومیٹر رقبے کا قبضہ کھو چکا ہے۔تفصیلات کے مطابق جنوبی ایشیاءمیں جغرافیائی طور پر تمام ہمسایہ اور سارک ممالک کے ساتھ سرحدی تنازعات،فوجی تنازعات اور آبی تنازعات میں الجھ کر تمام پڑوسی ممالک کو پریشان کرنے والا بھارت اب عوامی جمہوریہ چین کے تازہ ترین فوجی اقدام سے خود اس حد تک دباؤ کا شکار ہو گیا ہے کہ بھارتی قیادت عجیب مخمصے میں مبتلا ہوکر اپنا کوئی سرکاری موقف پیش نہیں کر پا رہی جبکہ اس صورتحال میں خطے کی تمام اقوام اور چھوٹے ہمسایہ ممالک کو بھی ہندوستان کی دھونس دھمکیوں کو روکنے کا حوصلہ مل رہا ہے ۔ خطے کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین چین اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی سرحدی کشیدگی کے پیش نظر خطے میں کسی بھی نوعیت کے فوجی تصادم کو خارج از امکان نہیں دے رہے۔عوامی جمہوریہ چین کے حالیہ اقدام سے بھارتی فوج کے حوصلے بھی پست ہو گئے ہیں اور بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف کے مصلحت پسندانہ بیان سے بھارتی فوج کا مورال بھی مزید پست ہو گیا ہے جس پر بھارتی میڈیا نے طوفان برپا کر رکھا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان 3500کلومیٹر طویل غیر متعین سرحد ہے جو ہمالیہ کے ساتھ ملتی ہے اور عسکری لحاظ سے انتہائی حساس اور مشکل ترین خطہ ہے۔چین تبت اور اکسائی چن خطے تک تیز ترین ذرائع نقل و حمل کا بہترین انفراسٹرکچر اور روڈ نیٹ ورک تیار کر چکاہے تاکہ وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں سرحد تک فوری رسائی حاصل کر سکے جبکہ دوسری جانب ہندوستان بھی اپنی طرف سے سرحد تک بہترین رسائی کے لئے اقدامات کر رہا ہے بھارتی میڈیا نے تسلیم کیا ہے کہ چین نے ہندوستان کے زیر قبضہ لداخ خطے میں اپنے کیمپ لگا لئے ہیں جو کہ بھارتی دعوؤں کے مطابق ہندوستان کا علاقہ ہے تاہم چین نے بھارت کے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے ۔اطلاعات کے مطابق اس وقت لداخ میں 5ہزار سے زائد چینی فوجی موجود ہیںاور ہندوستان کو فیس سیونگ کا مسئلہ درپیش ہے جبکہ بھارت کو لیپو لیک خطے میں نیپال کے ساتھ بھی سرحدی تنازعے کا مسئلہ درپیش ہے اس لئے اس وقت بھارت کو چین سکم بارڈر،نیپال بھارت سرحد اور لداخ کے بیک وقت تین محاذوں پر زبردست دباؤ کا سامنا ہے جبکہ بھارت کے چیف آف ڈیفنس سٹاف کا کہنا ہے کہ یہ تینوں معاملات آپس میں باہم مربوط نہیں ہیں اور یہ سرحدی مسائل جلد حل ہو جائیں گے بھارتی میڈیا اور بھارت کے عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے چیف آف ڈیفنس سٹاف کو ایسا بیان نہیں دینا چاہیئے تھا جس میں بھارت کی کمزوری ظاہر ہو ۔واضح رہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف اپنی فضائی کارروائی کے دوران بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ابھی نندن کی پاکستان میں حراست کے معاملے پر بھی ایسے ہی مضحکہ خیز بیانات داغے تھے جن پر دنیا بھر کے عسکری ماہرین نے بھی بھارت کا تمسخر اڑایا تھا۔ دوسری جانب نیپال حکومت بھی بھارت کے سامنے ڈٹ گئی ہے ، بھارت اور نیپال کے مابین سرحدی علاقہ میں نئی سڑک کی تعمیر اور افتتاح پرتنازع کھڑا ہوچکا ہے۔کھٹمنڈو کے حکام نے نئی دہلی سرکار سے کہا ہے کہ وہ نیپال کے علاقے کے اندر کسی قسم کی سرگرمی کرنے سے باز رہے جبکہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ مکمل طور پر اپنے علاقے میں سڑک تعمیر کررہا ہے۔ اس متنازع سڑک کی تعمیر اور افتتاح کیخلاف کھٹمنڈو میں شہریوں نے بھارتی سفارت خانے کے باہر مظاہرے بھی کئے تھے اورمقامی پولیس نے حفاظتی اقدامات کے تحت درجنوں مظاہرین کوگرفتار کرلیا تھا۔ نیپال حکومت کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت نے متنازعہ علاقے سے گزرنے والی جو نئی سڑک کھول رہا ہے،یہ نئی سڑک ہندوستان اور نیپال کے مابین علاقائی تنازع کا باعث بن گئی ہے ، بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اس نئی لنک روڈ کاافتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ علاقہ بھارت کی ریاست اتراکھنڈ کے دھارچولہ کو لائن آف ایک چول کنٹرول (ایل اے سی) کے قریب لپو لیک پاس سے جوڑتا ہے جو چین کی سرحد سے متصل ہے۔ ہندوستان کا کہنا ہے کہ اس نئی سڑک سے زائرین کیلاش کومانسوروور جانے کی سہولت ہوگی اور اس سڑک کی وجہ سے سفر کے دورانیہ میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔ لیپو لیک کے جنوب کی سمت ، جسے کالاپانی علاقہ کہا جاتا ہے ،جوکہ ہندوستان اور نیپال کے مابین ایک عرصہ سے متنازع خطہ چلا آرہا ہے۔بھارتی وزیردفاع راجناتھ سنگھ نے اس لنک روڈ کا افتتاح کرنے کے بعد اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ انہیں اس اہم ترین سڑک کا افتتاح کرکے خوشی ہوئی ہے۔ تبت نے بھی چین کےساتھ سہ طرفہ اسٹرٹیجک جنکشن پر نئی دہلی کی طرف سے متنازعہ علاقے میں سڑک کے افتتاح پر افسوس کا اظہارکیا تھا جبکہ نیپال نے ہندوستان سے ’اپنی سرزمین‘ کے اندر کسی بھی طرح کی سرگرمی کرنے سے باز رہنے کو کہا ۔ لپو لیک پاس چین سے ملانے کےلئے بہت بڑی اسٹریٹجک اہمیت کی حامل ہے۔مبصرین کاخیال ہے کہ ہندوستان کا اس سڑک کو کھولنے کے اقدام کا اصل مقصد چین کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا ہے ، جبکہ نئی دہلی کا دعویٰ ہے کہ یہ سڑک زائرین کی سہولت کےلئے کھولی جارہی ہے۔ نیپال کی وزارت خارجہ امورنے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ یکطرفہ کارروائی دونوں ممالک کے مابین وزیر اعظم کی سطح پر طے پانےوالی افہام و تفہیم کی خلاف ورزی ہے جبکہ بھارت اور نیپال کے مابین طے پایا تھا کہ اس متنازع سڑک سمیت دیگر باہمی امور کا حل بات چیت کے ذریعے تلاش کیا جائےگا۔نیپال کی حکمران کمیونسٹ پارٹی نے اپنے اعلامیہ میں ہندوستان کی اس کارروائی کو نیپال کی خودمختاری کو پامال کرنے کے مترادف قرار دیا ہے جبکہ ہندوستان نے نیپال کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ نئی سڑک مکمل طور پر بھارت کے علاقے کے اندر ہے۔ ہندوستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق ریاست اتراکھنڈ کے پٹورا گڑھ ضلع میں جس سڑک کا افتتاح کیا گیا ہے وہ سڑک مکمل طور پر ہندوستان کے علاقے میں واقع ہے۔ یہ سڑک پہلے سے موجود راستے پر چل رہی ہے جس میں کیلاش مانسوروور یاتری کے زائرین کرام سفر کرتے ہیں۔بھارتی ترجمان کے مطابق اس سڑک کا تنازعہ حل کرنے کےلئے دونوں ممالک کے سیکرٹری خارجہ کی سطح پر بات چیت کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور دونوں ممالک کی حکومتوںکی جانب سے کورونا وائرس کے بحران سے کامیابی کےساتھ نمٹنے کے بعدمذاکرات کی تاریخوں کو حتمی شکل دی جائےگی۔ ترجمان نے کہاکہ بھارت سفارتی مکالمے کے ذریعے نیپال کےساتھ قریبی اور دوستانہ دوطرفہ تعلقات کے جذبے کے تحت بائنری باؤنڈری ایشوز کو حل کرنے کےلئے پرعزم ہے۔بھارتی ترجمان نے کہاہے کہ 1816 ءمیں نیپال اور برطانوی ہند کے مابین طے پانےوالے معاہدے کے تحت مخالی ندی کا تعین ہوا جو کالاپانی سے ہوتا ہوا دونوں ہمسایہ ممالک کی حدود پرہے۔ تاہم دریا میں بہت سی معاونتیں کالاپانی میں ملتی ہیںجس کی وجہ سے ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ دریا کالاپانی سے شروع ہوتا ہے لیکن نیپال کا کہنا ہے کہ اس کی ابتدا لیپو لیک پاس سے ہوتی ہے جو اس کا علاقہ ہے۔ پچھلے سال بھی دونوں ممالک کے مابین اس مسئلے پرتناؤ دیکھنے کو ملا تھاجب نومبر میں ہندوستان نے ایک نئے نقشے کو جاری کیا تھا ، جس نے کالاپانی کے علاقہ کو اپنی ریاست اتراکھنڈ کے اندر دکھایا تھا ، جس سے نیپال کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیپو لیک پاس بھی چینی فوجیوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کےلئے ایک اہم نکتہ کے طور پر ہندوستان کےلئے ایک تزویراتی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ کھٹمنڈو میں بھارتی سفارت خانے کے باہر ملک گیر کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے باوجود متنازع علاقہ میں بھارت کی طرف سے سڑک کی تعمیر اور افتتاح کےخلاف چند روز قبل احتجاج کےلئے بڑی تعداد میں نیپالی جمع ہوئے تھے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کم از کم 38 مظاہرین کو حراست میں لیا گیا تھا۔ نیپال میں بہت سے لوگوں نے بیک آف انڈیا ہیش ٹیگ کےساتھ ٹویٹر پر تبصروں میں بھی اس متنازع علاقہ کو نیپال کا حصہ قرار دیا۔بھارت کے وزیر دفاع کی طرف سے اس متنازع سڑک کے افتتاح کی خبر منظرعام پر آنے کے فوری بعد نیپال میں دفاعی ماہرین اور سیاستدان بھی بھارتی اقدام کی مخالفت کرنے کےلئے سوشل میڈیا اور دوسرے پلیٹ فارم پر بھارتی کارروائی کیخلاف احتجاج کرتے نظر آئے جو نیپال حکومت پرزور دے رہے ہیں کہ فوری طور پر بھارتی حکومت سے تحریری طور پرمتنازع سڑک کی تعمیر کو روکنے کےلئے کہا جائے جس سے نیپال کے علاقے میں واقع لیپولیخ کے علاقے میں یکطرفہ طور پر تبدیل ہوجائیگا ۔نیپال کے سابق سیکرٹری خارجہ مدھرمن اچاریہ اور سابق وزیر خارجہ کمال تھاپا نے نیپالی سرزمین پر ہندوستانی تجاوزات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نیپال حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر بھارت کےساتھ بات چیت کےلئے اقدامات اٹھائے۔ لمپیادھورا ،لیپولکھ ایک خودمختار نیپالی علاقہ ہے۔جہاں سے ہندوستانی فوجی دستوں کو ہٹانے کی بجائے بھارت وہاں آمدورفت کےلئے ایک نیا روڈ لنک تعمیرکررہاہے۔جو کہ نیپال کے اقتدار اعلی کو چیلنج کرنے کی سوچی سمجھی بھارتی کارروائی ہے اس لئے حکومت نیپال بغیر کسی مزید تاخیر کے اس اہم ترین مسئلہ پر ضروری اقدام اٹھائے۔

تازہ ترین