• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پاکستان کا نوجوان اس وقت دہشت گردی کو اپنا سب سے اہم مسئلہ تصور نہیں کرتا بلکہ وہ فکر معاش میں مبتلا ہے۔ اسے بے روزگاری کا ”بم“ خوفزدہ کئے ہوئے ہے۔ یہ بات برٹش کونسل کے ایک تفصیلی سروے کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ نئی نسل کے حوالے سے یہ رپورٹ 2009ء میں بھی جاری کی گئی تھی لیکن 2013ء میں جاری یہ رپورٹ گزشتہ رپورٹ سے زیادہ وسعت رکھتی ہے۔ 2007ء میں 50 فیصد پاکستانی نوجوان مایوسی اور ناامیدی کا شکار تھے لیکن اب یہ تعداد 94 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ پانچ میں سے صرف ایک نوجوان یہ سوچتا ہے کہ آئندہ سال ملک معاشی اور اقتصادی طور پر بہتر ہو جائے گا۔
برٹش کونسل نے اپنے اس تفصیلی سروے میں جب نوجوانوں سے زندگی کا اہم ترین واقعہ جاننے کیلئے سوال کیا تو یہ حیران کن صورتحال سامنے آئی کہ جواب میں کسی نوجوان نے کسی مثبت واقعہ یا اجتماعی کامیابی کی طرف اشارہ نہیں کیا بلکہ نوجوان نسل کیلئے اہم واقعہ زلزلہ، سیلاب کی تباہی اور بے نظیر کا قتل تھا۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ فکر مند بات یہ ہے کہ نوجوان نسل کا ایک چوتھائی حصہ وہ ہے جو براہ راست امن وامان کی صورتحال سے متاثر ہوا ہے جو اس نے دہشت گردی کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ فاٹا میں نوجوان نسل کا خیال ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں اور گلوبل پیس انڈیکس میں اس وقت پاکستان کا نمبر 158 ملکوں میں 149واں ہے۔
جب پاکستان میں سیاسی نظام کے حوالے سے سوال کیا گیا تو صرف 29 فیصد نے جمہوریت کے حق میں بات کی۔ ان کے خیال میں جمہوری نظام میں انہیں پانی، گیس، بجلی اور تعلیم تک رسائی ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس نظام میں معیشت بہتری کی طرف گامزن ہو سکتی ہے۔
32 فیصد کے مطابق فوجی حکومت بہتر ہے، ان کے خیال میں فوجی حکومت انہیں اندرونی اور بیرونی خطرات سے تحفظ فراہم کر سکتی ہے اور فوج غیرملکی دشمن کے خلاف بھی ڈھال ہے۔ 38 فیصد کا خیال ہے کہ ملک میں شریعت کا نظام بہتر ہے کیونکہ اس سے اخلاقی اور مذہبی اقدار کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور اس سے مذہبی برداشت کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں 64 فیصد نوجوان لڑکوں نے خود کو قدامت پسند مذہبی کے طور پر پیش کیا ہے۔ نوجوان لڑکیوں میں یہ تعداد 75 فیصد تھی۔ رپورٹ کے مطابق صرف ایک چوتھائی فیصد شہری نوجوان سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں۔ سروے کے دوران جن نوجوانوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ان میں سے تین چوتھائی نوجوان غیرملکی میڈیا، موسیقی اور خیالات سے فکرمند تھے۔شہری علاقوں کے نوجوان کہ جن نوجوانوں کو کیبل کی سہولت میسر ہے وہ کم قدامت پسند ہیں اور کیبل ٹی وی تک رسائی نہ رکھنے والے ملک کے حوالے سے زیادہ پرامید ہیں۔سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ جن کے پاس موبائل فونز ہیں وہ ووٹ کرنا چاہتے ہیں ان کی سیاست میں دلچسپی بھی زیادہ ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ پاکستان کو بدل سکتے ہیں۔سروے کے مطابق 13 ملین پہلی بار اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔ 25 ملین ووٹرز کی عمریں 18 سے 29 سال کے درمیان ہیں۔ صرف 40 فیصد ووٹرز یقینی طور پر ووٹ ڈالیں گے۔ 21 فیصد نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کسے ووٹ دیں گے، کوئی بھی سیاسی پارٹی جو اس 21 فیصد کو باہر نکال لائے گی وہ خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ صرف دس فیصد نوجوان ووٹ کے اضافے کا مطلب ہے کہ الیکشن کے روز 2.5 ملین اضافی ووٹ کاسٹ ہوں گے۔ملک بھر میں اس وقت پاکستانی خاندانوں میں زیادہ پڑھے لکھے افراد کی عمریں 30 سال ہیں اور یہ تعداد سیاسی پارٹیوں کو بہترین موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنا نقطہ نظر ان پر واضح کریں جو روایتی ووٹ دینے کے انداز سے ہٹ کر سوچتے ہیں۔ بہت سارے نوجوانوں کا خیال ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے ان سے رابطے کیلئے کچھ زیادہ کوشش نہیں کی ہے۔سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اگر آنے والے الیکشن میں سیاسی پارٹیاں نوجوانوں سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں تو انہیں ملک کیلئے مضبوط معاشی ایجنڈا دینا ہوگا اور امن وامان کے حوالے سے ان کے تحفظات دور کرنا ہوں گے۔آئندہ نسل میں جمہوریت کا حامی آٹھ فیصد حصہ ایسا بھی ہے جو بیرون ملک مواقعوں کی تلاش میں ہے۔ ان میں سے نصف حصہ مکمل طور پر بیرون ملک شفٹ ہونا چاہتا ہے اور نصف جوان کچھ وقت بیرون ملک گزارنا چاہتے ہیں۔ووٹ ڈالنے کا خواہشمند 80 فیصد نوجوان طبقہ یہ سوچتا ہے کہ ان کے فیصلے پر خاندانی اور دیگر اثرات ہوتے ہیں۔اس وقت ملک کی تمام سیاسی جماعتیں الیکشن میں کامیابی کیلئے نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن کیا وہ نوجوانوں کے حقیقی مسائل حل کر کے انہیں فکرمعاش سے نکال سکتے ہیں۔ انہیں یہ امید دلا سکتے ہیں کہ آنے والا کل ان کیلئے پرامن اور بہترین ہوگا۔ جب ان کی زندگی کا یادگار واقعہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ کامیابی ہوگا۔
تازہ ترین