• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزف بوریل نے گزشتہ روز جرمنی کے سفارتکاروں سے جو خطاب کیا، اس میں اگرچہ تجزیہ کاروں کے طویل عرصے سے ظاہر کئے گئے اندازوں کا حوالہ دیا گیا مگر بہت سے لوگوں کو اس میں صدیوں پہلے ابن خلدون کے پیش کردہ نظریے کی تفسیر نظر آئی ہوگی۔ تاریخ داں اور مدبر ابن خلدون کا کہنا تھا کہ بڑی سے بڑی ریاست کی عمر ایک سو بیس سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یورپی یونین کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ شواہد عالمی طاقت کے طور پر چین کے امریکہ کی جگہ لینے کی نشاندہی کررہے ہیں، یورپی یونین کو چین کے حوالے سے مضبوط پالیسی بنانا ہوگی اور اپنے مفادات و اقدار کو سامنے رکھنا اور کسی کا آلہ کار بننے سے بچنا ہوگا۔ جوزف بوریل کے اس بیان کو کورونا وائرس سے جنم لینے والے مسائل اور عالمی سماجی معاشی اور سیاسی امور پر اسکے اثرات کے منظر نامے میں سوچ میں اس تبدیلی کا اشارہ کہا جاسکتا ہے جو عالمی ادارۂ صحت کے اجلاس میں امریکی الزامات پر بعض یورپی ممالک کے تحفظات کی صورت میں سامنے آئی۔ ایسے عالم میں کہ امریکہ اورچین کی تجارتی مسابقت اورپچھلے برسوں میں ایک دوسرے پر پابندیاں لگانے کی مشق، کورونا وائرس کے پھیلائو کے بعد الزامات و جوابی الزامات سے آگے بڑھ کر سرد جنگ کی صورت اختیار کرتی محسوس ہورہی ہے امریکہ اور چین دونوں ممالک سے اچھے تعلقات رکھنے اور کئی امور میںان پر انحصار کرنے والے ممالک خصوصاً پاکستان کو تنی ہوئی رسی پر چلنے والے فرد کی طرح احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔چین پاکستان کا پڑوسی، سی پیک منصوبے کا پارٹنر اور مشکل وقتوں آزمودہ دوست ملک ہے جس نےکورونا وائرس پر قابو پانے کی کوششوں میں جدید آلات اور ٹیکنالوجی سمیت ہر طرح کی معاونت سے پاکستان کی ہمہ جہت مدد کی ہے۔ دوسری طرف قیام پاکستان کے بعد طویل عرصے تک دفاعی معاہدوں کا ساتھی، منگلا اور تربیلا ڈیم سمیت متعدد منصوبوں میں معاونت کرنےوالا اور طویل عرصے کی رفاقت کا حامل ملک امریکہ ہے جس کےساتھ افغانستان کی موجودہ آتش فشاں صورتحال کو امن و آشتی کی راہ پر لانے کی کوششوں میں پاکستان کا موثر ترین کردار ہے۔ اسلام آباد ایک سرد جنگ میں حلیف بننے کے تجربات اور دہشت گردی سمیت بنیادی بقاوسلامتی کے مسائل کی سختیاں بھی جھیل چکا ہے ۔اسکے لئےنہ تو چین کی بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی اور غربت دور کرنے کی کوششیں نظر انداز کرنا ممکن ہے نہ سپر پاور کہلانےاورمالیاتی وسائل و ٹیکنالوجی کے حامل ملک امریکہ سمیت باقی دنیا سے کٹنا مناسب ہے، پاکستان کو اس وقت جن گوناگوں مسائل کا سامنا ہے ان کےدرمیان معاشی اور دیگر امور کی سنگینی کے علاوہ قومی بقاو سلامتی اور استحکام کا مسئلہ یقیناً اہم ہے۔ نئی دہلی کو کی گئی بات چیت کے ذریعے دیرینہ مسائل پر امن طور پر حل کرنے کی پیشکشوں کا جب تک مثبت جواب نہیں آتا اس وقت تک قومی سلامتی کا مسئلہ اولین ترجیح رہے گا۔ ایسی کیفیت میں کہ بھارت کو پاکستان سے جنگ کے بہانے تراشنے، مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت، گرفتاریوں اور ایذا رسانیوں سے آگے بڑھ کر پاکستان کا وجود ختم کرنے کے اعلانات، لداخ میں چین سے چھیڑخانی کی کوششوں، نیپال سمیت ہر پڑوسی کے معاملات میں دخل اندازی کا چسکا لگا ہوا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کی امن پسند اقوام اورانسان دوست حلقوں کی حمایت سے مظلوموں کے حقوق اور تمام ملکوں کی خودمختاری کےاحترام کیلئے متعلقہ اداروں کو متحرک بنایا جائے، جبکہ ’’کورونا‘‘ کے بعد ابھرنے والے نئے عالمی نظام میں احتیاط اور تدبر کے تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی بقا ،ترقی اور خوشحالی کے مفاد میں فیصلے کرنا ہوں گے اور اسی مناسبت سے ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔

تازہ ترین