• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات صرف ایک ہی ہے کہ ہم ماضی میں بھی ٹھگے گئے تھے اور اب بھی ٹھگے جا رہے ہیں اور شاید آئندہ بھی ہمارا مقدر یہی بنارسی ٹھگ ہیں۔ اب تو بات شاید بنارسی ٹھگوں کے استاد ڈبل شاہ سے بھی آگے بڑھ چکی ہے، عوام کو دن دہاڑے نت نئے جھانسے دے کر پہلے سے زیادہ بُری طرح لوٹا جا رہا ہے، بات پھر بھی سرے نہیں لگ رہی۔ ماضی کے ٹھگ تو خوشبو والا رومال سنگھا کر اور میٹھا لڈو کھلا کر لوٹ رہے تھے، موجودہ ٹھگ تو آنکھوں میں سرعام مرچیں ڈال کر وارداتوں پر وارداتیں کیے جا رہے ہیں اور انہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں، اسکینڈل پر اسکینڈل کھل رہے ہیں، انکوائری کمیشن بن رہے ہیں، اب تو کمیشن انکوائری والا ہو یا کھانے والا، دونوں ایک سے ہی لگنے لگے ہیں، کسی پر کوئی اعتبار نہیں۔دماغ ابھی تک لاک ڈائون کے اثرات سے باہر نہیں نکل پا رہا، سیلف آئسولیشن نے کچھ ایسی کیفیت طاری کر دی ہے کہ ہرطرف تنہائی سی تنہائی محسوس ہونے لگی ہے۔ بڑی مشکل سے ذہنی یکسوئی پانے کی جستجو میں ہوں کہ کچھ اچھا ہو جائے اور یہ ہزار لفظوں کی کہانی اور بھی مختصر ہو جائے۔ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے تاریخی دور سے گزر رہے ہیں جہاں کورونا متاثرین کے نام پر عوام 8171پر حکومت اور 6677پر حکومت عوام سے مانگ رہی ہے اور ساتھ ہی ہمارے خان اعظم کہہ رہے ہیں کہ آپ حکومت کو ایک روپیہ دیں، حکومت آپ کو پانچ روپے واپس کرے گی یعنی آپ حکومت پر اندھا اعتماد کریں، اپنا پیسہ حکومت کے حوالے کرکے سکون سے ہاتھوں پر ہاتھ دھرے گھر بیٹھیں، حکومت آپ کو چار گنا زائد واپس کرے گی۔ اب یہ پتا نہیں کہ کس شکل میں۔ اس پیشکش کے پس منظر کا بھی کچھ اندازہ نہیں کہ یہ کس بنیاد پر کی گئی اور مستقبل میں اس کے کیا فوائد حاصل ہوں گے اور پھر حکومت کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ ملک کی لٹی پٹی معیشت، خالی خزانے سے لوگوں کو چار گنا زائد واپس کرے۔ اس پیشکش کا مقصد اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ ایک روپے کے عوض حکومت عوام کو پانچ روپے نقد دینے کے بجائے سماجی خدمات کے عوض واپس کرے گی تو گزشتہ تقریباً دو سال کے دورِ اقتدار میں جو اعلیٰ ترین سماجی خدمات پیش کی گئی ہیں ان کی لاہور کے گلی محلوں سے لے کر تمام بڑی شاہراہیں گواہی دے رہی ہیں۔ لاک ڈائون کے دوران لاہور شہر میں ڈکیتی و رہزنی کی ریکارڈ وارداتیں ہوئیں، موٹر سائیکل، کار چوری چھیننے کی لگ بھگ 446واقعات رپورٹ ہوئے، شہری کروڑوں روپے مالیت کے سامان سے محروم کر دیے گئے۔ دو درجن سے زائد افراد قتل کر دیے گئے۔ مختلف تھانوں میں موصول ہونے والی بیشتر وارداتوں کے مقدمات تک درج نہ کئے گئے۔ جگہ جگہ پولیس ناکے بھی جرائم پیشہ افراد کو نکیل نہ ڈال سکے، اُلٹا لاک ڈائون میں پولیس نے وہ ات مچائی کہ ہر چھوٹے بڑے دکاندار کو خلاف ورزی کے نام پر پکڑا، بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑیوں میں ڈالا، تھانوں میں بند کیا اور ہر دکاندار کو اس کی حیثیت کے مطابق پانچ سے بیس ہزار لے کر چھوڑا۔ ڈبل سواری کی خلاف ورزی پر روزے دار بزرگ شہریوں کی ناکوں پر جو تذلیل کی گئی وہ ایک الگ کہانی ہے۔ عید سے قبل لاک ڈائون ختم ہوا تو اسی لاہور پولیس نے عام شہریوں کو تنگ کرنے کے نئے بہانے تلاش کرلیے جس کا میں خود عینی شاہد ہوں کہ چاند رات کو داتا دربار اور مینار پاکستان کے سائے تلے پولیس نے ناکے لگا کر نہ صرف ٹریفک کی روانی کو بلاوجہ تعطل کا شکار کیا اور عید کی خریداری کیلئے گھروں سے نکلنے والوں کو روک کر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگا کر اپنی انا کی تسکین بھی کی جبکہ لاہور پولیس کے افسران کی مالی حالت دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ نیب کی اب تک ان پر نظر نہیں پڑی، انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے اور اثاثہ جات چھپانے والوں میں لاہور پولیس پہلے نمبر پر ہے۔ ڈیڈ لائن گزر جانے کے باوجود بارہ ہزار چھ سو چھیانوے اہلکاروں نے گوشوارے جمع نہیں کرائے، کینال روڈ کی صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ نہر کنارے لگے جنگلے ٹوٹ رہے ہیں اور انڈر پاسوں میں سڑک کے عین درمیان جگہ جگہ گڑھے پڑ چکے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب کوئی حادثہ نہ ہو رہا ہو۔ کوروناکی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے مگر بچے نہر میں نہا رہے ہیں اور انتظامیہ اپنی آنکھوں سے یہ سارا تماشا دیکھ رہی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اس خطرناک وبا کو روکنے کیلئے ہر طرح کی تدابیر کی جا رہی ہیں تو نہر میں پھیلنے والے اس وائرس کو کون روکے گا؟ جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ شہر کے فلٹریشن پلانٹ شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کے بجائے گندگی کے ڈھیر اور کتوں کی آماجگاہ بن جائیں اور ہمارے لاٹ صاحب بیورو کریسی کے ہاتھوں اس حد تک بے بس ہو جائیں کہ انہیں آب پاک منصوبے پر عمل درآمد کرانے کے لئے دھمکی دینا پڑے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ گڈ گورننس کہاں کھڑی ہے؟ کہتے ہیں جنے لاہور نہیں ویکھیا او جمیا ای نئیں، تو سچ یہ بھی ہے کہ جنے لاہور نوں اُجاڑیا او کدی وسیا وی نئیں (جس نے لاہور اُجاڑا وہ خود بھی کبھی آباد نہیں ہوا) ہماری سیاسی تاریخ تو یہی کہتی ہے کہ جس سیاسی جماعت نے انتخابی سیاست میں لاہور کو فتح کیا وہی جماعت راج سنگھاسن پر بیٹھی اور جس نے اس شہر کو برباد کیا لاہوریوں نے کبھی اس جماعت کی طرف دوبارہ نہیں دیکھا۔ عمران خان اور شریفوں کی سیاست کا فیصلہ کن معرکہ اسی شہر میں ہونا ہے اور یہ شہر دونوں سیاسی پہلوانوں کا آبائی اکھاڑا بھی ہے۔ اگر لاہور نہیں تو پشور بھی نہیں۔ یہی ہے ہزار لفظوں کی مختصر کہانی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین