• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
19اکتوبر 1999ء کو کمانڈو جرنیل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا تو موصوف خاصے گھبرائے ہوئے تھے۔ 111بریگیڈ کے غازی شام پانچ بجے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی عمارات پر قبضہ کر چکے تھے۔ وزیر اعظم ہاؤس گھیرا جا چکا تھا مگر پرویز مشرف رات دو بجے قوم سے خطاب کرنے آئے۔ مارشل لاء لگانے کا باضابطہ اعلان فرمایا اور ساتھ میں اپنا سات نکاتی ایجنڈہ بھی جاری کیا۔ کئی دن گزر گئے مگر پرویز مشرف صاحب سے حکومت نہیں بن پا رہی تھی۔ 27اکتوبر کو موصوف نے اپنی نیشنل سکیورٹی کونسل تشکیل دی۔ 28اکتوبر کو اس پر میں نے کالم لکھا تھا اس کالم کا ایک ٹکڑا قند مکرر کے طور پر پیش کرتا ہوں، اسے پڑھ لیجئے پھر بات کو آگے بڑھاتے ہیں !! اس کالم کا عنوان تھا ”لوگ تبدیلی مانگتے ہیں“۔
”پاکستان کی موجودہ حکومت، فوجی سے زیادہ تبلیغی جماعت والوں کی سرکار لگتی ہے۔ ”پر تحمل ، روادار، غصے سے ناآشنا، محبت سے لبریز، جلد بازی سے گریز، میانہ رو، دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھنے والی “ … سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ بارہ پندرہ دن پنگھوڑے میں لیٹے رہنے کے بعد حکومت نے کچھ ”غوں غاں“ کرنا بھی شروع کر دیا ہے ورنہ 12اکتوبر کے بعد سے اب تک احساس یہی تھا کہ جنرل مشرف صاحب اچانک کسی دن ٹیلی ویژن پر آئیں گے اور قوم سے ایک فقرے کا خطاب کرتے ہوئے پوچھیں گے
”اوے … مینوں دھکا کنے دتا سی؟“
بہرحال دیر آید درست آید، نئے سیٹ اپ کے خدوخال ابھرنا شروع ہو گئے ہیں، نیشنل سکیورٹی کونسل بن گئی، گورنر مقرر ہو گئے، دو وزیر بھی نامزد ہو چکے، نوکر شاہی کی اکھاڑ پچھاڑ بھی شروع ہے۔ سب لوگ یہ توقع کر رہے تھے کہ اس دفعہ شاید کچھ نئے چہروں کی رونمائی ہو گی۔ جوان، تگڑے، توانائی سے بھرپور لوگ سامنے لائے جائیں گے جو جنرل صاحب کے ” 7 نکاتی انقلابی ایجنڈے“ کو پورا کرنے کے لئے ”تن من دھن“ کی بازی لگا دیں گے مگر شریف الدین پیرزادہ ، عطیہ عنایت اللہ، عبدالستار، عزیز اے منشی، جنرل صفدر، عظیم داؤد پوتہ، جنرل شفیق اور ڈاکٹر یعقوب کو نئے سیٹ اپ میں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے جنرل صاحب ”تلوار کے ذریعے جہاد“ پر نہیں، ”جہاد بذریعہ کردار“ پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمیں کسی کی دیانت پر شبہ ہے نہ کردار پر شک، مگر اتنا ضرور پتہ ہے کہ یہ لوگ انفرادی طور پر اور ٹیم کے طور پر کئی حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔ کردار کے یہ غازی ان حکومتوں کو تو سیدھا رستہ نہ دکھا سکے اب کوئی معجزہ رونما کر دیں گے تو بڑی بات ہو گی۔ “
اس واقعے کو تیرہ چودہ برس بیت چکے، کل جب نگران کابینہ نے حلف اٹھایا تو ہمیں مشرف اور ان کے صالح اور نیکوکار عمال حکومت بہت یاد آئے۔ نگران وزیر اعظم نے بھی بہت مشکل سے آٹھ دن بعد اِدھر اُدھر سے لوگوں کو جمع کر کے کابینہ جوڑی ہے کہ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا …اس پر اس کابینہ کے صالحین کے بارے میں جو مزے مزے کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں ، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کابینہ کتنی ”فعال“ ”نگران“ اور ”غیرجانبدار“ ہو گی۔ تو آیئے آپ کو صحافتی چنڈو خانے کی چند خبریں سناتے ہیں۔
#…وفاقی کابینہ میں شامل ایک بزرگ مشرف کے ابتدائی دنوں میں، ان کے وزیر مذہبی امور رہ چکے ہیں۔ یہ بزرگ انتہائی سادہ لوح ہیں۔ حج کا سیزن تھا، ان بزرگ سے شکایت کی گئی کہ منیٰ میں پاکستانی حاجیوں کے خیمے بہت دور نصب کئے گئے ہیں۔ سعودی حکومت نے حدود حرم کی نشاندہی کے لئے بورڈ لگا رکھے ہیں، خیمے حرم کی حدود سے بھی باہر ہیں!
بزرگ وزیر نے پوچھا ، ”تو پھر ؟“ان سے کہا گیا کہ کچھ کریں ۔ جس پر ان وزیر نے جواب دیا کہ ”اچھا سعودی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے بورڈ اکھاڑ کر پیچھے نصب کرے تاکہ پاکستانی خیمے حدود حرم کے اندر رہ سکیں!!“
جو بزرگ آج سے بارہ تیرہ سال قبل اس حال کو پہنچے ہوئے تھے، اب کس حال میں ہوں گے؟ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
#…صحافتی چنڈو خانے سے اگلی اطلاع ایک اور وزیر صاحب کے بارے میں ہے، جن کی کمپنی نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA)میں کام کرتی ہے۔ اس کمپنی نے NHA سے پیسے لینے ہیں۔ اب یہ وزیر صاحب مواصلات کی وزارت چاہتے ہیں تاکہ Boss بن کر NHA سے اپنی کمپنی کے پیسے نکلوا سکیں۔ #…نگران وزراء میں سے پیری مریدی کے ایک سلسلے کے بزرگ بھی ہیں، جو گڑھی خدا بخش میں ہونے والی ماتمی تقریبات میں صدر آصف علی زرداری کے پہلو بہ پہلو چوکڑی مارے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اب وہ غیر جانبدار نگران ہیں۔ #…ایک وزیر صاحب جو ریٹائرڈ پولیس افسر ہیں، چند ماہ پہلے تک تحریک انصاف میں عمران خاں کی زیر قیادت سونامی لانا چاہ رہے تھے، ان کی غیر جانبداری کے کیا کہنے! #…باقی وزراء میں کسی کا سفارشی پیپلز پارٹی کا مقرر کردہ اٹارنی جنرل ہے تو کوئی پٹارو کالج کے حوالے سے صاحب کا براہ راست نامزد کردہ ہے تو کوئی یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادگان کا دوست! اللہ اللہ ایسی غیرجانبداری! #…سندھ کے نگران اعلیٰ کا بہت تذکرہ ہو چکا کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے تن من دھن سے پیپلز پارٹی کی حکومت کی ”سیوا“ میں مصروف رہے۔ پنجاب کے نگران اعلیٰ نے آتے ہی دعوے تو بہت کئے تھے مگر ”پالیسیوں کے تسلسل “ کے نام پر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کے تبادلے ان کے لئے بھاری پتھر ثابت ہوئے ۔ لگتا ہے کہ اب وہ صرف ”بسنت بسنت“ کھیلیں گے۔ یہ نگران ہیرے موتی کیسے چنے جاتے ہیں؟ کہاں سے چنے جاتے ہیں؟ ہمیں اس کا تو علم نہیں مگر اتنا پتہ ہے کہ یہ سب ”ایویں“ ہی ہیں۔ یہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن تو ہرگز نہیں کرا سکیں گے تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان نگرانوں کے ہوتے ہوئے الیکشن ”آزادانہ“ ضرور ہوں گے۔ موجودہ نگران کابینہ ہمیں ہرنام سنگھ کا خاندان ہی لگتی ہے۔ ہرنام سنگھ نے کسی سے سب کا تعارف کچھ یوں کرایا”یہ اس سے ملو …یہ ہے میری بیوی، اس کا نام ہے گوگل کور… ایک سوال پوچھو، دس جواب دیتی ہے۔“ ”یہ ہے میرا بیٹا …فیس بک سنگھ، گھر کی ہر بات پورے محلے کو سنا کر آتا ہے!“
”یہ ہے میری بیوی ٹیوٹر (TWITTER) کور …سارا محلہ اس کو فالو کرتا ہے!“ یہ میں ہوں …سمارٹ فون سنگھ، ہر کام میں پھرتی بہت مگر بیڑی دو گھنٹے بعد فارغ!“ ہماری دعا ہے کہ صالحین کے اس قافلے کی بیڑیاں کام کرتی رہیں، ورنہ یہ تو حلوہ کھا کر دو ماہ بعد گھروں کو چلے جائیں گے اور ہم آنے والوں کو روتے رہ جائیں گے!!
تازہ ترین