• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رائے عامہ کی طاقت امریکی دفتر جنگ (پینٹاگان) سے بھی زیادہ موثر ہوسکتی ہے۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ امریکہ نے ویت نام کی جنگ ویت نام میں نہیں ہاری تھی نیویارک ،واشنگٹن، شکاگو اورلاس اینجلس کی سڑکوں پر امریکی فوجیوں کے والدین اور بیوی بچوں کے احتجاجی جلوسوں کے سامنے ہاری تھی۔
کسی ایسے ہی اندیشے کے تحت جارج بش اور ڈک چینی کی حکومت نے افغانستان اور عراق سے آنے والے فوجی تابوتوں کی تصویریں اتارنے اور اخباروں میں چھاپنے پر پابندی عائد کردی تھی مگر ویت نام کی شکست اورکابل بغداد کی شرمندگی کے د رمیانی عرصے میں ایک اور ”حادثہ“ رونما ہوچکاتھا اور وہ ”انفارمیشن ٹیکنالوجی“ کے انقلاب کاحادثہ ہے جس کی وجہ سے ہزار کوشش کے باوجود امریکی عوام سے اس صداقت کو چھپایا نہیں جاسکتا کہ 2001 میں شروع ہونے والی افغانستان کی جنگ سے لے کر اب تک کے عرصے میں خودکشی کرنے والے امریکی فوجیو ں کی تعداد اس جنگ میں مارے جانے والے امریکی فوجیوں سے دوگنی ہے۔جنگ میں مارے جانے والے ایک ہزار 950 ہیں اوراپنے ہاتھوں سے مارے جانے والے یعنی خودکشی کرنے والوں کی تعداد 2676 ہے۔
نفسیات کے ماہرین نے مذکورہ بالا حقائق کے حوالے سے ایک مضمون ”پینٹاگان سٹڈی“ کے عنوان سے برائے مطالعہ پیش کیا ہے جس پر بہت کام ہو رہاہے۔ عالمی تنازعات پر ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے والی ساؤتھ وزیرستان کی سبینا خان بتاتی ہیں کہ سال 2012 کے دوران روزانہ ایک امریکی فوجی نے خودکشی کی۔ ”نیوی ٹائمز“ کے حساب سے ہر 27گھنٹے کے بعد ایک امریکی فوجی نے اپنی جان لے لی۔ ہر100 امریکی فوجیوں میں سے جو افغانستان یاعراق میں دادِ شجاعت دے رہے تھے گیارہ سے بیس تک اپنا ذہنی توازن برقرار رکھنے میں ناکام ہوئے۔ خودکشی کی وارداتوں میں خوفناک اضافے کی وجہ سے ”پینٹاگان“ اپنے 54ارب ڈالروں کے میڈیکل بجٹ میں سے کم از کم چارفیصد فوجیوں کے نفسیاتی علاج پر خرچ کرنے پر مجبور ہوا۔سبینا خان بتاتی ہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج کے پاس امریکی فوجیوں کے مقابلے میں کم تر اسلحہ ہے اور ٹیکنالوجی بھی زیادہ ایڈوانس نہیں ہے مگر اس نے اس جنگ میں 3ہزار 571 فوجیوں کی قربانی دی ہے مگر وہاں خودکشی کی وارداتیں کچھ زیادہ نہیں ہوں گی۔ اپنے ملک کی سرحد پر جنگ لڑنے والے فوجیوں کا ”مورال“ پرائے دیس میں اپنے وطن سے دور جنگ لڑنے والے فوجیوں کے مورال سے بہت بہترہوتا ہے۔ ایک تجزیئے کے مطابق افغانستان اور عراق پر حملہ سے امریکہ کو ویت نام کی شکست سے کہیں زیادہ مالی، سیاسی اور نفسیاتی صدمہ ہوا ہے اوراس کے منفی اثرات بھی بہت زیادہ عرصے تک رہیں گے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ افغانستان پرحملہ کرکے امریکہ ویت نام کی شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھامگر معاملہ الٹ گیا، ویت نام کی جنگ پر بہت حد تک نظریاتی چھاپ بھی تھی اور تصادم روسی بلاک اور امریکی بلاک کے درمیان سمجھا جاتا تھا مگر افغانستان پر حملہ کرنے سے پہلے امریکہ روسی بلاک کا جنازہ پڑھ چکا تھا اور دنیا کی واحد اکلوتی، تنہا سپرپاور ہونے کادعویٰ کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے جنگی بجٹ کے ساتھ دنیا کی خونخوار ترین طاقت بن چکاتھا اور اتنی بڑی طاقت نے دنیا کے سب سے زیادہ پسماندہ اور کمزورترین ملک افغانستان پرفوجی حملہ کیا تھا مگر فتح کا علم لہرانے کی خواہش دس سالوں میں بھی پوری نہ کرسکا۔ دنیا کی اکلوتی سپرپاور کا اس سے زیادہ ”کولیٹرل ڈیمیج“ اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس کی جنگی طاقت نے افغانستان اور عراق میں ایک لاکھ چالیس ہزار بیگناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں اس کے اپنے فوجی مارے گئے ہیں اور اتنے ہی فوجی ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں اور اڑھائی ہزار سے زیادہ خودکشی کرنے پرمجبور ہوئے ہیں اور میدانِ جنگ سے واپسی مشکل ہو رہی ہے کیونکہ ”کمبل نہیں چھوڑ رہا“
تازہ ترین