• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
گزشتہ دنوں عید بھی گزری اور ہوائی جہاز کا سانحہ بھی ہواجس میں 97انسان جن میںمرد عورتیں اور بچے سبھی شامل تھے۔ سب کے سب کھلی آنکھوں سے موت کی وادی میںچلے گئے ان کی بے بسی کا سوچتا ہوں تو اب بھی رات کو کئی کئی گھنٹے کیلئے نیند اڑ جاتی ہے۔ملک سے باہر بیٹھے کئی پاکستان نژاد سوچتے ہیں کہ پاکستان میںحادثے پر بے حسی کا مظاہر ہ کیا گیا اور سوگ کے دنوں میں عیدکے جشن اور شاپنگ میںمصروف ہوگئے نہ تو حکومت نے کسی سوگ کا اعلان کیا نہ مرنے والوں کے لواحقین کے زخموں پر صحیح معنوں میںمرہم رکھا۔ بلکہ دیکھنے کو ملا کہ ہرچیز میں ایک تماش بین کا زاویہ نمایاں طورپر نظرآتا ہے۔ اس میںپاکستانیوں کا قصور نہیں کیونکہ ان کی پرورش ایسے ہی کلچر میںہوئی ہے۔ ملک سے باہر میںایسے کئی پاکستانیوں کو جانتا ہوں جنہوں نے واقعی میںنہ تو عید منائی اور نہ ہی وہ اس صدمے سے نکل پائے۔ باہر بیٹھے لوگوں کا زیادہ ذکر کیا جائے تو پاکستان میںبیٹھے لوگ سمجھتے ہیں کہ باہر بیٹھے لوگوں کو خواہ مخواہ میںاتنی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ بلکہ بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ اگر پاکستان کا درد زیادہ محسوس ہوتا ہے تو واپس آجائیں اور یہاں آکر رہیں۔ میں پاکستانیوں کے اس نقطہ نظر سے اس لئے بھی متفق نہیں کیونکہ اس رویے سے ہم دنیا بھر کے ہمدردوں کو خود سے دورکردیتے ہیں ۔ پاکستان میںرہنے والوں کے مسائل دیکھیں تو بہت سے لوگ عجیب سوچ کے مالک ہیں۔ سائنسی رویے تو ان کے پاس سے نہیں گزرے، کئی کو کہتے سنا کہ مرنے کیلئے اتنانصیبوں والا دن ہے تو پھر اس کے لئے صرف حادثے کا ہی انتظار کیوں۔ یا یوں کہ ایک فوتگی پر گیامرحوم کی موت عمرہ پر گئے سعودی عرب میںہوئی ۔میںمرحوم کے والد کے پاس افسوس کیلئے بیٹھا تھا کہ ایک ادھیڑ عمر آدمی کمرے میں مرحوم کے والد کے ساتھ ایک طرف فرش پر بیٹھ گیا اور یوں گویا ہوا۔سمجھ نہیں آرہی کہ آپ کو مبارکباددوں یا افسوس کروں ۔آپ خوش قسمت ہیں جس کے بچے کی موت مدینے میںہوئی۔ اللہ اپنے خاص پیاروں کو ایسی نصیب والی موت دیتا ہے۔ آپ کو اس پر فخر ہوگا۔ مجھے بھی اللہ کی رضا پرخوشی ہے۔ مرحوم کا والد ظاہر ہے کچھ بول نہ سکا۔ اس نے غیر معمولی آنکھیں کھولتے ہوتے میری طرف دیکھااور دل کی بے چینی کو دانتوں میںپیس کے خاموش سا ہوگیا۔ مجھے بھی حیرت ہوئی کہ افسوس کیلئے آنے والا توقع کررہا ہےکہ یہاں افسوس کی بجائے جشن کا سماں ہونا چاہیے۔ میںسوچ رہا تھا کہ نصیبوں والی جشن والی بات تو بچہ پیدا ہونے کی شکل میںہوا کرتی ہے۔ یہ موت پر کیسا جشن اور کیسی خوش نصیبی۔ اس کا مطلب تو یہ ہواکہ ہرمدینے میں مرنے والے کو خوش نصیب سمجھنا چاہیے اور اس پر افسوس کا اظہار نہیں کرنا چاہیے بلکہ مرنے پر مبارکباد دینی چاہیے۔ میںایسی بیمار سوچ پر تف تو نہیںلیکن افسوس ضرور کرسکتا ہوں۔ یہ مذہبی رویہ ہے۔ میںنے پاکستان میںکورونا وائرس میںکسی پر ہیز اور احتیاط کو خاطر میںنہ لانے والوں کا رویہ دیکھا ہے جو کہتے پھرتے ہیں کہ جو رات قبر میںلکھی ہے وہ باہر نہیںہوسکتی اور جوباہر ہے۔ وہ قبر میںنہیںہوسکتی۔ گویا کورونا وائرس سے کسی قسم کی احتیاط حکم الہٰی کے کاموں میںمخل ہونا ہے اور جو کچھ ہورہا ہے سب طے شدہ رضائے الہٰی سے ہورہا ہے۔ ہمیں کسی تدبیر کی ضرورت نہیں۔ بلکہ تدبیر شرک کے زمرے میںآتی ہے۔ ان لوگوں کا ہر معاملے پر تقدیر یقین اور تدبیر سے انحراف کا مسئلہ ۔ یہی غیر سائنسی رویہ ہے،جس سے ہم اپنی نااہلیوں کو بڑے یقین اور وثوق کے ساتھ رضائے الہٰی کے پیچھےچھپادیتے ہیںاور مرنے والوں کو شہید اور ان کی وفات کو یوں بڑھا چڑھا کے پیش کرتے ہیں کہ لوگ جہاز جیسے حادثے کو بھی اللہ کی خاص نعمت سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ ایسا صرف اسی جہاز کے حادثے کے ساتھ نہیںہوا۔ بلکہ ہم نے بے شمار ایسے حادثات کی اموات کو شہادت اور پھر شہادت کو خوب Glorify کرکے کچھ کا کچھ بنادیتے ہیںلیکن اصل حقائق اور اصل خامیوں پر توجہ نہیں دیتے ۔ نہ ہی متعلقہ مجرموں کو پکڑنے کی طرف دھیان دیا جاتا ہے۔ جس سے آئندہ ایسی غلطیوں کی روک تھام کا کوئی بند نہیں باندھا جاتا۔ اور ہم ایسے انداز سے شہید بناتے ہیں کہ مرنے والا جیسے کسی محاذ جنگ پر وطن کی خاطر لڑتا ہوں کام آیا ہو۔ ہماری حکومتوں کو اپنی سوچ کو حقیقی اور سائنسی بنانے کی ضرورت ہے۔ اب اس حادثے کاذمہ پائلٹ کے سر تھوپا جارہا ہے۔ ظاہر پائلٹ تو اب کسی بھی الزام کا جواب دینے نہیںآئے گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جس طرح دہشت گردی کے دور میںکسی بھی دھماکے کے بعد پولیس ہر تفتیشی ذمہ داری سے بچنے کیلئے دھماکے کو خود کش قرار دے کہ سارامعاملہ وہیںپرلپیٹ دیا کرتی تھی۔ اب وہی اداروں اور حکمرانوںکا رویہ عوام کے اندربھی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ یہ ایک بے حسی کی کیفیت ہے جو کہ معاشی پسماندگی سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔ یہ سب کیسے ٹھیک ہوگا۔ کون کرےگا۔ اس معاملے میںمجھے تاحال سرنگ کی دوسری طرف روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔
تازہ ترین