• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند سیاسی خاندانوں کے تشکیل دیئے گئے جمہوری نظام کے جو پرستار ، سپریم کورٹ کا اعتبار اور استعداد بڑھنے کو جوڈیشل ایکٹیوزیم قرار دے کر ، اسے حدود سے تجاوز کر نے کا طعنہ دے کر سپریم کورٹ کی سر گرمی کو جمہوریت کے لئے خطرہ قرار دے رہے تھے ، وہ آئین پاکستان کو یا تو یکسر بھول چکے تھے یا قانون کی نظر اندازی کے عادی ہو چکے تھے ۔ اب یہ امر حتمی ہے کہ 11مئی کا الیکشن آئین کے مطابق ہو ، اور آئین وقانون کی تشریح فقط عدلیہ کا کام ہے۔ سپریم کورٹ اپنا یہ آئینی فریضہ بخوبی انجام دے رہی ہے ۔ اس نے اسی تناظر میں یہ واضح فیصلہ دیا ہے کہ ”ان پڑھ الیکشن کے لئے اہل ہو سکتا ہے ، جعلی ڈگری بنوانے والا نہیں “۔
شکر الحمد للہ !پاکستان میں آئین و قانون کی حکمرانی کا سفر شروع ہوا ۔ آئین کی روشنی میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے درجنوں کی تعداد میں وہ اراکین پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی ، انتخابی سیاست کے دائرے سے ہمیشہ کے لئے باہر ہو جائیں گے، جوالیکشن 2008ء میں خود کو انتخابی امیدوار بنانے کے لئے بی اے کی جعلی ڈگری بنوانے اور اس کے استعمال کے جرم کے مرتکب ہوئے۔ یہ تو عام حالات میں بھی جرم ہے، چہ جائیکہ ،عوام کی نمائندگی کے مقدس فریضے میں جعل سازی کا ارتکاب کیا جائے ۔ پیپلز پارٹی ، آئین کی اصلی حالت میں بحالی ، کو اپنے اقتدار کی پوری باری کے واحد کارنامے کے طور پر پیش کر رہی ہے ۔ اس کار خیر میں وہ مکمل آزاد تھی ، اس کے علاوہ اپوزیشن اور تمام پارلیمانی گروپس نے باہمی محنت اور اتفاق رائے سے یہ کارنامہ انجام دیا ۔ اس پر جمہوریت پسندوں نے خوب بغلیں بجائیں کہ فوجی آمروں نے سیاست دانوں کے ساتھ مل کر آئین کا جو حلیہ بگاڑا تھا ، وہ مکمل طور پر درست کر دیا گیا اور آئین اپنی ا صل شکل میں بحال ہو گیا ۔ حدود آرڈیننس ، جو بہت اسلامی بتایا جاتا اور جس کے خاتمے پر مذہبی طبقے کی سخت مزاحمت کا خدشہ تھا ، وہ ختم ہو ا تو کوئی بھی مزاحمت نہ ہوئی۔ یوں ثابت ہوا کہ قوم نے پارلیمنٹ کو بحالی جمہوریت کا مکمل اور آزادانہ موقع دیا ہے ۔ وہ اصلی جمہوریت کی بحالی کے لئے جو کرنا ہے کرلے ۔ مشرف دور کی ، امیداوار اسمبلی بننے کے لئے گریجوایٹ ہونے کی شرط بھی ختم کر دی گئی ۔ اس شرط کو پورا کر نے کے لئے منجھی ہوئی قانون پسند سیاست دان اور امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر محترمہ بیگم سیدہ عابدہ نے ملتان کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے بطور پرائیویٹ امیدوار بی اے کا امتحان دیا اورپاس ہوکر انتخابی امیدوار بنی ۔ کسی سابق وزیر اعظم پر تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی پابندی بھی ختم ہو گئی ۔ مشرف دور میں ضلعی حکومتوں کا جو نظام نافذ ہوا تھا ، وہ بھی ختم کر دیا گیا ، حالانکہ بہت سے جمہوریت پسند اسے جاری رکھنے کے حامی تھے ۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ صدر کا اسمبلی توڑنے کا اختیارجو برسوں متنازعہ رہنے کے بعد میاں نواز شریف کے دوسرے دور میں محترمہ بے نظیر کے تعاون سے ختم ہوا لیکن جنرل مشرف نے اسے دوبارہ آئین میں شامل کرایا ، پھر ختم ہوا۔ وزیر اعظم کو مکمل طور پر انتظامی سربراہ بنا دیا گیا ۔گویا سیاست دانوں کو آئین جیسا مطلوب تھا ، اسی شکل میں آ گیا ۔ اب اس کا لازمی تقاضہ ہے کہ انتخابات اسی آئین کے مطابق ہوں،جو ہو رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کا متذکرہ فیصلہ اسی امر کا ثبوت ہے ۔یوں مرضی کے انتخابات کرانے ( جس میں دولت کے بے دریغ استعمال کے علاوہ ، آئین کی کئی دفعات کو مفلوج رکھا جاتا تھا ) کا راستہ بند ہوگیا۔ بعد از الیکشن بھی اس امر کی قانونی گنجائش موجود ہو گی کہ اگر کوئی قانون شکن، آئین کی آرٹیکلز62،63کی چھلنی لگنے کے باوجود ، انتخابی امیدوار بننے میں کامیاب ہو گیا /گئی ہے تو احتساب کی یہ آئینی گنجائش پھر بھی رہے گی کہ اگر خلاف قانون ٹیکس چوری ، قرض خوری ، جعل سازی یا کسی اور طرح کی لاقانونیت کے ثبوت سامنے آگئے ہیں تو ، اسمبلی سے اس کا حق نمائندگی ختم کرانے کے لئے عدلیہ یا الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جا سکے گا۔ اسی طرح سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن نے جعلی ڈگریوں پر کڑے چیک کے جاری فوکس”انتخاب بمطابق آئین“کا آغاز کیا ہے ، وہ بعد از الیکشن بھی جاری و ساری رہے گا ۔
الیکشن کمیشن کی لگی چھلنی سے نکل جانے میں کامیاب ہوجانے والے دس بیس قانون شکنی کے مر تکب منتخب نمائندے اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہو گئے تو مطلوب تبدیلی کر نے والا جمہوری عمل تیز تر ہوجائے گا ۔ نفاذ آئین سے حقیقی جمہوریت کی منزل کو جانے والی یہ وہ راہ ہے ، جو ملک میں اشرافیہ اور عوام کے لئے الگ الگ قوانین کا خاتمہ کرتے ہوئے قوم کو جمہوریت کی منزل سے ہمکنار کرے گا ۔ اسٹیٹس کوء کی روایتی سیاسی قوتیں ہر الیکشن کی آمد پر دولت و دھاندلی کی دھول اڑا کر اسے جاگیردرانہ جمہوریت کی گرد میں اس راہ کو غائب کر دیتی تھیں ۔ قوم اس غیر آئینی انتخاب کو ہی جمہوریت سمجھتی رہی جس کے بعد خوب دھما چوکڑی مچتی اور ملک پیچھے ہی پھسلتا جاتا۔ اب عدلیہ کی آزادی ، میڈیا کی سرگرمی اور قوم کی جزوی بیداری سے یہ آئینی ٹریک بالکل واضح ہے۔ پاکستان کے اس راہ پر آنے سے اسٹیٹس کوء کی حامی قوتوں کے حواری صدمے سے دوچار ہیں ، وہ اس کا اظہار آئین کی آرٹیکلز 62،63پر تندو تیز تنقید سے کر رہے ہیں ۔ ایسی بات نہیں کہ جب آئینی ترامیم کا پیکج تیار ہو رہا تھا اور اس کی خبریں باہر آ رہی تھیں تو جاگیر دارانہ جمہوریت کو ہی جمہوریت کہنے والے، کرپٹ سیاسی قوتوں کے یہ ابلاغی معاونین، آرٹیکلز 62،63کی سختی سے کوئی بے خبر تھے ۔ انہیں اس میں جو پیچیدگیاں اور مشکلات اب نظر آرہی ہیں، وہ اس سے بخوبی واقف تھے ، لیکن اسی خوف سے کہ اس پر تنقید کو عوام کرپٹ حکمرانوں کا دفاع نہ سمجھیں، خاموش رہے۔ آرٹیکلز 62،63کی یہی وہ طاقت ہے جو عوام دوستی کی علامت اورمعیاری و ذمہ دارانہ پارلیمنٹ کی ضمانت ہے۔ اگر یہ آئینی دفعات ناقابل عمل ہیں تو یہ ناقدین جو عوام دوست اور جمہوریت کی ضامن آئینی دفعات کو ناقابل عمل ، آئیڈیل اور پیچیدہ قرار دے رہے ہیں، آئین کے حلئے کی درستگی کے آزادانہ عمل میں کیوں نہ بولے ؟
اس لئے کہ یہ بولنا آسان نہیں تھا ؟ اور آسان اس لئے نہیں تھا کہ آئین کے ہر دو آرٹیکلزکی اپنی سچائی ہے ، جو بلاآخر آج سر چڑھ کر انتخابی عمل میں بول رہی ہے ۔ رہے یہ اٹھتے سوال کہ صادق و امین اور ”کردار“کی تشریح کون کرے گا ، تو ان کے لئے عرض ہے کہ ختم ہوتی پارلیمنٹ کے مکمل اتفاق رائے کے مطابق یہ کام فقط عدلیہ کا ہے ، کیونکہ اب آئین کا حلیہ درست ہونے کے بعد (جس سے پوری پارلیمنٹ نے اتفاق کیا) آئینی رو سے آئین و قانون کی تشریح صرف و صرف عدلیہ کا ہی کام ہے ، تب ہی تو ہمارا ایک وزیر اعظم، وزیر اعظم نہ رہا اور آج عدلیہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ جعل سازوں کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کا فیصلہ صادر کر سکے ۔ واضح رہے کہ آئین و قانو ن کی تشریح پاکستانی عدلیہ کا ہی کام نہیں بلکہ پوری دنیا میں فراہمی انصاف کا منبع صرف عدالتیں ہی ہوتی ہیں اور نظریہ نفاذ قانون کی روشنی میں انصاف کی فراہمی آئین و قانون کے نفاذ سے ہی ہوتی ہے جو قانون و آئین کی تشریح سے ہوتا ہے۔اب اگر روایتی سیاسی جماعتوں اور ان کے ابلاغی معاونین کے نزدیک آئین کی آرٹیکلز 62،63 ناقابل عمل ، پیچیدہ ، سخت یا آئیڈیل ہیں تو وہ انتظار کریں کہ کوئی پارلیمنٹ انہیں آئین کے مطابق دو تہائی اکثریت سے تبدیل یاان میں ترمیم کر سکے ۔ نافذ العمل آئین کی رو سے اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ آرٹیکلز 62، 63کے علاوہ امیدواروں کی اہلیت جانچنے کا کوئی اور پیمانہ اختیار کیا جائے ۔
تازہ ترین