• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ روز ہوئے میں یہاں لندن میں اپنے ایک دوست کے گھر گیا۔ اُن کے بچّے ایک عجیب و غریب کھلونے سے کھیل رہے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے، پتہ چلا کہ نئے زمانے کے بچّے آئی پیڈ سے کھیل رہے ہیں۔ ہر چند کہ عزت خاک میں ملی لیکن پوچھنا پڑا کہ وہ کیا ہوتا ہے؟
میں ٹھہرا تختی اور سلیٹ کے زمانے کا آدمی۔ یوں لگا کہ بچّے سلیٹ سے کھیل رہے ہیں۔ بچّے مجھے سمجھانے لگے’دیکھئے انکل اس میں یہ ہو سکتا ہے، اس میں وہ ہوسکتا ہے‘۔میرے سامنے پوری دنیا کھل گئی لیکن میں منہ کھولے سنتا رہا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ میں جو ہاں ہاں میں سر ہلا رہا تھا وہ محض میری اداکاری تھی۔ مطلب یہ کہ دنیا کہیں کی کہیں نکل گئی ہے۔ زمانہ سرپٹ دوڑا جارہا ہے اور وقت کی چال کا یہ حال ہے کہ کسی حال گرفت میں نہیں آتا۔ جو پیچھے رہ گیا اس کی عزت کا خاک میں ملنا حیرت کی بات نہیں ۔جو زمانے کے ساتھ نہیں چلا ، ایسی پستی میں گرا کہ کوئی ہاتھ تھام کر باہر نکالنے کا بھی روادار نہیں۔ میں یہ کہہ کر نجات نہیں پا سکتا کہ یہ نئی نسل کا زمانہ ہے اور میں ٹھہرا پرانے دور کا انسان۔ اب اس طرح کی باتوں کی معافی ملنا بند ہو گئی ہے۔ اب دو ہی راستے ہیں یا تو آپ قدم بڑھائیں یا اپنا جاہل ہونا تسلیم کرلیں۔ ہر چند کہ جاہل کی سب سے بڑی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی جہالت کا اعتراف نہیں کرتا۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے نوجوان اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں ۔ کمپیوٹر کی دنیا میں چال بازی کرنی ہو تو پاکستان میں ایک سے ایک بڑا چالباز پڑا ہے ۔ دنیا میں کمپیوٹر میں وائرس سب سے پہلے لاہور کے دو لڑکوں نے ڈالا تھا اور ٹائم میگزین میں ان کی خبر چھپی تھی۔ اسی طرح دنیا میں کمپیوٹر کے سب سے کم عمر اور سند یافتہ ماہر ننھے بچّے بھی پاکستان ہی میں مل جاتے ہیں۔
لیکن میں حیران ہوں، ششدر ہوں اور انگلیاں دانتوں میں دبا رہا ہوں کہ اسی پاکستان میں یو ٹیوب ممنوع ہے۔ کیسا ملک ہے جہاں یوٹیوب ممنوع ہے لیکن عشق ممنوع جیسا لچر ڈرامہ دکھانے کی کھلی چھوٹ ہے۔ واہی تباہی کی روک تھام کیلئے ہی تو یوٹیوب بند کیا گیا تھا۔ اطلاعاً عرض ہے کہ کوئی کچھ بھی کرلے، کمپیوٹر کی دنیا میں اب جکڑ بندیاں ممکن نہیں۔ یوٹیوب کا بند ہونا بالکل ایسا ہے جیسے آپ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری کے اندر قدم رکھنے کو ہوں کہ اچانک کوئی لائبریری کا دروازہ دھڑام سے بند کر دے اور آپ مایوس لوگوں کی طرح نہیں بلکہ جہلاء کے انداز میں ناکام و نامراد واپس آجائیں۔ یوٹیوب بند ہوئے اب تو ایک عرصہ ہو چلا ہے۔ یہ کوئی تازہ واردات نہیں۔ مہینوں پر مہینے گزر گئے یہاں تک کہ پابندی لگانے والے بھی گزر گئے مگر پابندی کا یہ عالم ہے گویا پابندی نہ ہوئی، مقدّر ہوگیا۔ یہ تو ان سست الوجود لوگوں کا وتیرہ ہے جو رات کو ٹیلی ویژن چلتا چھوڑ کر سو جاتے ہیں اور غریب ٹیلی ویژن رات بھر عشقِ ممنوع جیسے مناظر دکھائے چلا جاتا ہے کہ الف کی بیوی بے کے شوہر کو لبھا رہی ہے اور جیم کا شوہر دال کی بیوی پر ڈورے ڈال رہا ہے۔ یوٹیوب کا قصّہ سیدھا سادہ ہے۔ اس میں دنیا بھر کے لوگ تمام دنیا کی اعلیٰ ذہانت بھی بھر سکتے ہیں اور گھٹیا بے ہودگی بھی ڈال سکتے ہیں۔ اگر کوئی روک تھام ہے تو واجبی سی۔ روک تھام اگر ہو سکتی ہے تو خود آپ کے اُس بٹن میں جس کو دبا کر آپ جو چاہیں دیکھیں اور جسے چاہے مسترد کر دیں، ٹھکرا دیں، اٹھا کر پھینک دیں اور پھر کبھی نہ دیکھیں۔ مختار آپ ہیں، یہ رعایت آپ کو پوری طرح حاصل ہے۔ اس معاملے میں بھی جبر نہیں۔
اس کے برعکس یوٹیوب میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں دنیا کے بڑے بڑے ماہرین، استاد، دانشور اپنے اپنے موضوعات پر لیکچر دے رہے ہیں اور وہ بھی یونیورسٹی کے طالب علموں کیلئے نہیں بلکہ مجھ جیسے عام ناظرین کیلئے اور علم کی جستجو میں پوری طرح غرق لوگوں کیلئے جنہیں جاننے کا اشتیاق ہوتا ہے۔ یہی جاننے کا اشتیاق قوموں کو آگے تک اور دور تک دیکھنے کا ہنر عطا کرتا ہے اور پھر انتخابات میں کاغذات نامزدگی داخل کرنے والے سے اس قسم کے سوال کئے جاتے ہیں کہ ملک میں ایٹمی بجلی گھر لگنے کے کیا امکانات ہو سکتے ہیں یا اسٹاک مارکیٹ میں غضب کی مندی کے رجحان کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو علم کے معاملے میں پیاسا رکھنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ کوئی ذرا دیر کو سوچے تو کہ ہم کہاں رہ گئے ہیں اور دنیا کہاں جا پہنچی ہے۔ اس میں کچھ میرا بھی خسارہ ہے۔ میں نے اپنے بی بی سی سے وابستگی کے دور میں جو بڑے دستاویزی پروگرام پیش کئے تھے اور جن کو غیر معمولی شہرت ملی تھی، مثا ل کے طور پر کتب خانہ، جرنیلی سڑک، شیر دریا اور ریل کہانی ، وہ پورے کے پورے پروگرام یوٹیوب پر چسپاں کر دےئے ہیں۔ ان پروگرامو ں میں معلومات کا ایک خزانہ شامل ہے اور پاکستان میں میرے سامعین ان سے خوب واقف ہیں لیکن کیسا غضب ہے کہ وہ ان پروگراموں کو سن نہیں سکتے۔ اسی طرح میں نے برصغیر کی مقبول موسیقی کی پوری تاریخ یوٹیوب میں ڈال دی ہے اور ایک دنیا اس سے استفادہ کر رہی ہے۔ میری ان کاوشوں سے فیض اٹھانے والوں کی تعداد دو لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اگر پاکستان میں یوٹیوب پر پہرے نہ بٹھائے گئے ہوتے تو اب تک پانچ لاکھ افراد اس سے استفادہ کر چکے ہوتے،کیسا بڑا خسارہ ہے۔ یہ بات وہی جانتا ہے جو حساب رکھتا ہے، بے خبر لوگوں کو کیا خبر۔یوٹیوب میں اگر کہیں خرافات شامل ہیں تو بالکل یوں جیسے علم و دانش کے ہموار راستے میں کہیں کوئی ٹھیکرا پڑا ہو یا کہیں کوئی کنکر ۔ اس میں علم کا ایسا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے کہ غوطہ لگانا تو بڑی بات ہے، اس کا چھینٹا بھی پڑجائے تو دماغ کے سارے دریچے روشن ہو جائیں۔ ان کواڑوں کو بھینچ کر بند کرنے سے نہ صرف یہ کہ تازہ ہوا اندر آنی بند ہو جاتی ہے بلکہ اند ر جو گھٹن ہوتی ہے اس کا عالم یوں سمجھ لیجئے جیسے گیس کھلی رہ گئی ہو اور سونے والوں کی آنکھیں بند رہ گئی ہوں۔ کوئی ہے جو جاگے اور جینے کی باتیں کرے۔ یوٹیوب کی خاطر یوٹرن لے لیجئے۔ کبھی نیکی بھی آپ کے جی میں آجائے تو کیا ہی اچھا ہو۔
تازہ ترین