• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برہمی یا غصّے کے حوالے سے بھی ایک بات غلط طور پر معروف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے اظہار سے غصّے میں کمی آجاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غصّے کا اظہار نہ کر کے آدمی اندر ہی اندر گھٹ جاتا ہے۔ یقینا یہ بات درست بھی ہے۔ البتہ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ یہ پہلو لوہر، اولاتونجی، باؤمیسر اور بش مین کی مدلل تحقیق میں درج ہے۔ اس تحقیق کے مطابق اکثر اوقات غصّے کی عُمر کم ہوتی ہے۔ چند لوگ غصّے میں آکر اگراس کا اظہار نہ کریں اور تحمّل سے کام لیں تو جلد ہی اس کیفیت سے نکل آتے ہیں۔ بلکہ اگرغصّے کا اظہار کیا جائے، تو وہ اس میں اضافے کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ ایک بات سے دوسری، دوسری سے تیسری نکلتی ہے، جو جلتی پر تیل کا کام دیتی ہے۔ چوں کہ بیش تر مواقع پر غصّہ تھوڑی دیر کے لیے ہوتا ہے، سو اگرانتظار کیا جائے تو خودہی یہ آگ ٹھنڈی پڑجاتی ہے۔

اگربات عام زندگی کے حقائق اور عمومی نفسیات سے متعلق مغالطوں سے ہٹ کر فکری مغالطوں کی کی جائے، تو فکر کی ایک عمارت ہے جو ہوا پر کھڑی ہے۔ ایک فکری مغالطہ عام ہے کہ ماضی اچھا تھا اور موجودہ دَور ایک بدتر دَور ہے۔ اس حوالے سے یہ جملہ اکثر سُننے کوملتا ہے ’’ہم کس بُرے دور میں جی رہے ہیں۔‘‘ ایک چونکا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ ہم معلوم انسانی تاریخ کے بہترین دَور میں جی رہے ہیں۔ لُطف و راحت کے وہ سامان جو ماضی میں کسی بادشاہ ہی کو میسّر ہوتے تھے، آج ایک عام آدمی کو بھی میسّر ہیں۔ پنکھا جھلنے والے غلاموں، حاذق حکیموں، گھڑے کے ٹھنڈے پانی، تیز رفتار گھوڑوں کی سواری اور میسّر موسمی سبزیوں پھلوں کی جگہ ایر کنڈیشز، جدید طبّی علاج، الیکٹرانک آلات، برق رفتار طیارے اورلاتعداد اقسام کے پھل، سبزیاں اور پکوان لے چکے ہیں۔ گئے وقتوں کی رعایا بادشاہ کی غلام اور جنبشِ ابرو کی منتظر رہتی تھی۔ یونانی اور رومی حکم رانوں، تاتاری فاتحین سے لے کر افریقی قبائلی سرداروں کی روداد قہر و خون آشامی کی خون رنگ داستان ہے۔ صنعتی دَور سے پہلے، بادشاہ ظلِ الٰہی یعنی ’’خدا کا سایہ‘‘ کہلوا کر زمین پر خدائی اختیار حاصل کرلیتا تھا۔ رومن دَور میں شہر میں تعمیر نمائش گاہ میں (جس سے جدید اسٹیڈیم کا تصوّر برآمد ہوا) دشمنوں، مجرموں اور مخالفین کو چھوڑدیا جاتا۔ 

اِردگرد کی نشستوں پر عمائدین اور عام شہری شوقِ تماشامیں بیٹھےہوتے۔ایک جانب بند کچھاروں اورپنجروں سے بھوکے اور مار کھا کھا کر وحشی ہوتے درندے، جن میں عموماً شیر اور ریچھ ہوتے، اُن پر چھوڑ دیے جاتے۔ مجرم یا دشمن نہتّے ہوتے تھے، سو وہ ان درندوں کا مقابلہ نہ کر پاتے، تو یہ جان وَر ہزاروں لوگوں کے تالیاں بجاتے مجمعے کے سامنے انھیں زندہ چیرپھاڑ کر کھا جاتے۔ یہ معاملہ لگاتار چلتا رہتا تھا، یہاں تک کہ وقفہ ہوجاتا۔ وقفے کے دوران میدان میں گلیڈئیٹر اُترآتے۔ گلیڈئیٹر شمشیرزن ہوتے، جو تلواروں کے ساتھ جان وَروں یا دوسرے شمشیر زنوں کا مقابلہ کرتے۔ اُنھیں معاشرے میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور شاعری کے علاوہ مصوّری میں بھی اُن کی عکاّسی کی جاتی۔ 

اگر کسی ملزم پر خون کے قریبی رشتے کے قتل کا الزام ثابت ہوجاتا، تو اسے مار مار کر نیم ہوش کردیا جاتا یا متواتر کوڑے لگائے جاتے۔ اس کے بعد اسے ایک بڑے تھیلے میں ڈال دیا جاتا،جس میں بہت سے زندہ جان وَر مثلاًخون خوار کتّے ،سانپ، بندر وغیرہ بھرے ہوتے۔ اور پھر تھیلے کا منہ بند کر کے اُسے سمندر میں پھینک دیا جاتا،جہاں جان وَر اسے کاٹتے، ڈستے ہوئے اس کے ساتھ ہی ڈوب جاتے۔ جدید تاریخ سے پہلے کی تواریخ شاہوں کی مطلق العنانیت اور جنگوں کی تاریخیں ہیں۔ عام آدمی کی نہ تو کوئی اوقات تھی اور نہ ہی تاریخ۔ بادشاہ نے اس درجہ اختیار حاصل کیا ہوتا کہ وہ جس مجرم کو چاہتا، معاف کردیا کرتا اور عوام پر جو ظلم چاہتا ڈھاتا تھا۔ جب بادشاہ رعایا پر دہشت طاری کرنا چاہتا، تو سرِعام زندہ انسانوں کی کھالیں کھینچ لی جاتیں۔ گرم سلاخوں سے نازک اعضا کو داغا جاتا اور باندھ کر اس طرح مخالف سمتوں میں کھینچا جاتا کہ جسم چِرجاتا۔ 

ہر بادشاہ ایسا نہ بھی ہوتا تو اس کے کارندے اور علاقائی نمایندے ظلم روا رکھتے تھے۔ مزدورکے کام کے اوقات مقرر تھے اور نہ ہی دن۔ بادشاہ زیادہ تر ملک میں انصاف اس لیے قائم کرتے تھے کہ انتشار نہ پھیل جائے، وگرنہ نیک سے نیک بادشاہ اپنے اُن رشتے داروں کو، جن سے اُنھیں تخت چھن جانے کا خدشہ ہوتا تھا یا تو قید کروا دیتے تھے یا قتل۔ بادشاہت خاندانی ہوتی تھی اور نسل درنسل چلتی تھی۔ اس کے فیصلوں میں عام آدمی کو دخل دینے کا کوئی حق نہ تھا۔ اسے بے چون وچرا ہرقسم کے احکامات پرسرجھکا دینا ہوتا تھا۔ خوش حالی اور انصاف کے ادوار کی روشن سے روشن عمارات کی بنیادوں میں بے گناہ انسانوں کے لاشے دفن ہوتے تھے۔

چھاپاخانے کی ایجاد،جس نے علم کو دُور دراز تک سستے انداز میں پہنچایا، قطب نما کی ایجاد جس نے براعظموں میں سمندری سفر کو سہل کیا، جاگیرداری دَور کے اختتام، صنعتی دَور کے آغاز اور نئی روشنی کی آمد سے عام فرد شکنجوں سے آزاد ہوا۔ اگر جدید دَور کو دیکھا جائے تو عام آدمی کو انصاف تک (استثنیات سے ہٹ کر) رسائی حاصل، طبّی سہولتیں میسّر ہیں اور ترقی کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ وطنِ عزیز کے شہروں میں صنعت کاروں، کاروباری اور تعلیم یافتہ افراد نے سیاست و فیصلہ سازی میں شامل ہوکر پرانے جاگیرداروں کی جگہ لےلی ہے۔ یاد رہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت صنعت و کاروبار پر مسلمانوں کو بے حد کم اختیار حاصل تھا۔ اگرعمومی طور پر بحیثیتِ مجموعی دنیا کو، جدید دنیا میں میسّر سہولتوں اور ان کے نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو عمومی صورتِ حال قابلِ رشک نظر آتی ہے۔ 

صحت سے متعلق سہولتوں، وسائل اور باخبری سے اوسط عُمر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اس بات کا تجزیہ کرنے کےلیے کہ پرانے وقتوں کے بزرگوں کی صحت اچھی ہوتی تھی اور وہ دیسی خوراک کے زور پر بھرپور طویل زندگی گزارتے تھے، فقط میانی صاحب کے قبرستان کی پرانی قبروں پر نصب کتبوں پر عُمروں کو پڑھ لیا جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں اِس خیال کی تردید کے لیے برطانوی مصنفین کی برصغیر پر لکھی کتابیں، پرانے احوال اور دیگر دستاویزات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک علاقے میں وبائی امراض پھیلتے تھے، تو پورے کے پورے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے تھے، دست و پیچیش اور زچگی کی پیچیدگیوں سے نومولود بڑی تعداد میں فوت ہوجاتے تھے اور ایک گھرانے میں اگر ایک بچّہ زندہ رہ جاتا،تو کئی مرجاتے تھے۔ 

ذیابطیس، سرطان، ٹائی فائڈ وغیرہ کا نہ علم تھا اور نہ ہی علاج۔ اس لیے جب کوئی فوت ہوتا تو پس یہی سمجھا جاتا کہ ؎ لائی حیات آئے، قضالے چلی، چلے۔ کسی بیماری کے سراغ کے بغیر لوگ اللہ کو پیارے ہوجاتے تھے۔ آج دنیا میں پانچ لاکھ افراد ایک سو برس کی عُمر سے اوپر کے ہیں اور 2050تک یہ تعداد بڑھ کر چالیس لاکھ ہوجائے گی۔ پہلے اوسط عمر بیماری، جنگ اور نومولودگی میں وفات کی وجہ سے کم ہوتی تھی۔ اب جنگوں میں پہلے کی طرح لاکھوں کروڑوں لوگ نہیں مرتے، بیماریوں پر یا تو قابو پالیا گیا ہے یا ان کا مقابلہ بہت بہتر ہونے لگا ہے اور اطفال کی اموات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے، اس لیے1900 میں اوسط عُمر31 برس اور 1950میں 48برس تھی اب 72 برس تک پہنچ چکی ہے۔ 

حقیقت تو یہ ہے کہ جنگ ِ عظیم اول میں دو کروڑ افراد لقمۂ اجل بنے تھے اور جنگ ِ عظیم دوم میں یہ تعداد چھے کروڑ تھی۔ آج کا زمانہ معلوم تاریخ کا بہترین زمانہ ہے۔ ذرائع ابلاغ کی وجہ سے دنیا کے ایک کونے میں ہونے والی جنگی جھڑپ کی گونج دوسرے کونے میں بیٹھے شخص کو اپنے مہمان خانے میں سنائی دیتی ہے۔ جنگ و جدال نہیں بڑھا، اس سے متعلق باخبری بڑھ گئی ہے۔ دنیا میں جنگوں اورخانہ جنگی سے مرنے والے افراد کی تعداد 1930کی دہائی میں تین سو افراد فی لاکھ تھی جو 1950کی دہائی میں تیس افراد فی لاکھ سے کم ہوتی ہوئی اکیسویں صدی میں ایک فرد فی ایک لاکھ افراد ہے۔ میڈیا پر دن رات قتل، ڈکیتی، زیادتی وغیرہ کی خبریں چلتی رہتی ہیں، جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہرسُو بےامنی کا دَور ہے۔ 

اگر امریکا ہی کی مثال لے لی جائے تو وہاں نوّے کی دہائی میں اکیس ہزار قتل، اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں سولہ ہزار قتل اور دوسری دہائی میں تیرہ ہزار قتل ہوئے۔ اگر دنیا بھر کاتجزیہ کیا جائے تو بیسویں صدی میں جوجرائم اپنے عروج پر تھے، وہ اکیسویں صدی میں کم ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں مراد مجموعی مُلکی جرائم سے نہیں بلکہ آبادی کے تناسب سے جرائم کی تعداد سے ہے۔ ماضی کے بچپن اور لڑکپن میں باغوں، میدانوں اور گلی محلوں میں زیادہ کھیل کھیلے جاتے تھے۔ ترقی یافتہ دنیا میں ورزش کی روایت بھی زور پکڑ چُکی ہے اور کھیلوں کے لیے سہولتیں، گراؤنڈز وغیرہ ریاست کی جانب سے باقاعدہ منظّم انداز میں فراہم کیے جاتے ہیں۔ کھیلوں کی دنیا میں دیکھا جائے تو ہر آنے والے اولمپکس اور دیگر بین الاقوامی مقابلوں میں پچھلے ریکارڈ ٹوٹتے جارہے ہیں ۔ اس کی وجہ زیادہ سائنسی انداز کی مشقیں، مخصوص خوراکیں اور بین الاقوامی سطح پر بہترمواقع ہیں۔ اس معاملے میں بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں تو حالات دگرگوں ہی ہوتے نظر آتے ہیں۔ 

ہاکی، کرکٹ، اسکواش، اسنوکر وغیرہ جن کے کبھی ہم چیمپیئن تھے، اب وہ بھی ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ باقی درجنوں کھیلوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ اُدھر دنیابہتری کی جانب جارہی ہے، ادھر ہم ’’شرم تم کو مگر آتی نہیں‘‘ کی عملی شکل بنے بیٹھے ہیں۔ آکسفورڈ کے ماہرِمعاشیات، میکس روزنے ذرائع ابلاغ کے رجحانات پر تحقیق کی ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ بری خبر کی تشہیر کرتے ہیں، جب کہ اچھی خبر کا یا تو ابلاغ نہیں کرتے یا پھر اسے ثانوی حیثیت دے دیتے ہیں جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ہرسُو برا ہی ہو رہا ہے۔ اُس نے مثال دی کہ گزشتہ کل سے آج تک ایک دن میں دنیا میں اُس طبقے کی تعداد میں، جو خط غربت سے نیچے بےچارگی میں زندگی بسر کر رہا تھا، 137000 افراد کی کمی ہوئی ہے۔ ذرائع ابلاغ یہ خبر تو شائع کردیں گے کہ افریقا میں تین افراد بھوک سے ہلاک ہوگئے، مگر شاذ ہی یہ خبر شائع کریں گے کہ قریباً سوا لاکھ افراد کو خوراک کی فراہمی میں بہتری آئی۔

آج کے انسان کے لیے خریداری میں پہلے سے کہیں بڑھ کر انتخاب کی سہولت موجود ہے۔ ہم اس سہولت کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اس کا احساس ہی ہمارے دل و دماغ سے محو ہوگیا ہے۔ گزرے وقتوں میں نہ صرف موسمی بلکہ وہی سبزیاں، پھل بازار میں دست یاب ہوتے تھے، جو علاقائی نوعیت کےہوتے۔ اب بازار میں بےشمار پھل، سبزیاں سارا سال موجود رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب کریانے کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کی جگہ، جہاں پہلے موجود محدود تعداد کی اشیا ہوتی تھیں، خریداری کے بڑے بڑے مراکز نے لے لی ہے۔ جہاں خاصی تعداد میں صارف کو انتخاب کی آسائش میسرہے۔ استطاعت رکھنے والے صارف کے لیےتوآسانی اس درجہ بڑھ گئی ہےکہ ای۔ شاپنگ کے ذریعے اشیا اس کو گھر بیٹھےبھی مل جاتی ہیں۔ 

جدّت اور تنّوع صرف خریداری تک محدود نہیں بلکہ یہ سفری وسائل کے انتخاب، صحت، تفریح اور دیگر شعبہ ہائے زندگی تک بڑھ گئے ہیں۔ صحت کے حوالے ہی سے دیکھ لیا جائے تو ماضی میں بیماریوں کا علاج بعض اوقات خاصا تکلیف دہ ہوتا تھا، جس میں متاثر شدہ عضو کو کاٹنے سے لے کر گرم دھات سے زخم داغنےتک کاعمل شامل تھا۔ بادشاہوں کو اپنے تمام تر وسائل اور دولت کے انبار کے باوجود حاذق حکیموں کی تلاش رہتی تھی اور بیماری کا علاج ہوجانے کی صُورت میں انھیں انعام و اکرام سے نوازا جاتا۔ عام آدمی کی ان حکیموں تک رسائی ہی نہ ہوتی تھی۔ جدید دَور میں ویکسین، اینٹی بائیوٹک، مخصوص ادویہ اور آپریشن وغیرہ کی سہولتیں عام آدمی کو بھی میسّر ہیں۔ طبّی تحقیق تو اتنی ترقی کرگئی ہے کہ جینیات میں بیماریوں کو تلاش کررہی ہے۔ ملیریا، تشنّج، ٹی۔بی، ٹائیفائیڈ، خسرہ، نمونیا اور زرد بخار وغیرہ کا علاج بستی بستی باآسانی میسّر ہے۔ ایک دَور میں دُور پار رہنے والے عزیز رشتے داروں اور دوستوں سے ملاقات دیوانے کا خواب لگتی تھی۔ چند سو میل کا سفر ہفتوں پر محیط ہوتا۔ 

کاروباری مقاصد کے لیے قافلے برسوں سفر میں رہتے تھے۔ آج کے دَور میں فون پر گفت گو یا انٹرنیٹ پر رابطہ چند ثانیے کا معاملہ ہے۔ علاوہ ازیں طیارے، ٹرین، گاڑی اور بحری جہازوں سے سفر کی مدت حد درجہ سمٹ گئی ہے۔ تعلقات میں گرم جوشی بھی بڑھی ہے یا نہیں، یہ ایک اور معاملہ ہے۔ ماضی قریب تک روزگار کے لیے پیشوں کا محدود انتخاب ہوتا تھا۔ زرعی ملکیت والے کے بچّے کاشت کار، کاروباری فرد کی اولاد کاروبار اور ملازمت پیشہ فرد کی اگلی نسل عموماً ان ہی پیشوں کو اختیار کرتی تھی اور وہ بھی محدود علاقوں میں۔ آج پاکستان میں مقابلے کا امتحان پاس کرکے آنے والے بیش تر افراد متوسّط اور نچلے متوسّط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ فوج کے جرنیلوں سے لے کر اعلیٰ ترین ملکی یونی ورسٹیوں میں طلبہ تک، بیش تر متوسّط یا غریب طبقے سے اُٹھے ہوئے ہیں۔ 

پیشوں میں انتخاب کی یہ سہولت پہلے کہاں میسّر تھی۔ ایک بےرنگ زندگی گزارنے والے کو سیاحت و انتخاب روزگار کے ساغرومینا کہاں مہیا تھے۔ پاکستان کے رئیس ترین لوگوں سے لے کربین الاقوامی سطح کے ارب پتیوں کی فہرست کا سرسری جائزہ ہی بتا دیتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے بنیادی سطح سے اپنی زندگیوں کا آغاز کیا اور یہ سبھی خود پرداختہ لوگ ہیں۔ ہر شخص تو اس طرح کی معاشی خوش حالی نہیں حاصل کرسکتا، مگر راہ نمامینار پر روشن ایک ننّھا سا دِیا ٹھنڈے پانی میں تیرتے شخص کو راہ نمائی، حرارت اور اُمید فراہم کرسکتاہے۔ اتنے بے شمار لوگوں کا اس طرح معاشی خوش حالی حاصل کرنا ماضی میں ممکن نہ تھا۔ 

پرانے قصّوں میں بھوک سے مرجانے والوں کا تذکرہ عام ہے، قحط ِ بنگال تو ابھی کل ہی کی بات ہے۔ بہت سے قحط خوراک کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ خانہ جنگی اور دیگر بحرانوں کا نتیجہ ہوتے تھے، البتہ خوراک کی کم یابی بھی ایک سنگین معاملہ تھا۔ ماضی کے برعکس جدید دَور میں قلت خوراک سے شاذ ہی لوگ مررہے ہیں، البتہ موٹاپے سے نہ صرف بڑی تعداد میں لوگ ذیابطیس، کولیسٹرول، امراضِ قلب وغیرہ میں مبتلا ہوکر مر رہے ہیں بلکہ دبلا کرنے کی ایک پورے صنعت کو چلا رہے ہیں۔ اس وقت مالتھس کے انیسویں صدی کے نظریے کے برعکس کہ آبادی کے بڑھنے سے دنیا میں غذا کی قلت ہوجائے گی، اس زمین پر دس ارب افراد کے لیے خوراک پیدا ہو رہی ہے، جب کہ دنیا کی کل آبادی7.7 ارب ہے۔ گویا سوا دو ارب زائد افراد کی خوراک پیدا ہو رہی ہے۔ اصل مسئلہ اس کی منصفانہ تقسیم ہے۔ ایک اور مسئلہ ’’منصفانہ‘‘ کی درست تعریف ہے۔ 

کیا جو قومیں زیادہ محنت اور ڈسپلن سے زندگی گزارتی ہیں، زیادہ آسائش اور انتخاب کی اہل ہیں یا ہڈحرام قومیں اپنی سُستی اور نالائقی کے باوجود فقط رحم کی بنیاد پر اپنے حق سے زیادہ کی مستحق ہیں۔ سو، یہاں معاملہ انصاف کا نہیں رہ جاتا بلکہ رحم کی جانب چلا جاتا ہے۔ مذہب کے حوالے سے بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ سے رحم مانگنا چاہیے، انصاف نہیں کہ انصاف کی صُورت میں کسی ایک گناہ کی سزا وہاں مل سکتی ہے، جہاں رحم درکار ہو۔ (جاری ہے)

تازہ ترین