• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لفظ لوٹا سیاسی اصطلاح میں پاکستانی عوام کیلئے معروف ہے۔ یہ لفظ ان سیاستدانوں کیلئے استعمال ہوتا ہے جو قومی مفاد کے نام پر متواتر اپنی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرتے ہیں۔ اس سے قدرے کم قابل نفرت قسم ان ٹیکنو کریٹس کی ہے جو صحیح وقت پر گرگٹ کی طرح اپنی آراء تبدیل کرکے نئی حکومت کیلئے قابل قبول ہوجاتے، اسی بابت یہ افراد ٹیکنوکریٹ لوٹے کہلاتے ہیں۔ ایسا عمل کسی عقلی بدعنوانی سے کم نہیں۔ ایسے دوغلے ذی فہم کسی بھی سیاسی حکومت کیلئے گھن سے کم نہیں۔ افسوسناک طور پر پاکستان میں ایسے ٹیکنو کریٹ لوٹوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ گزشتہ حکومت کی باقیات کی جانب سے اپنی ہی حکومت کی پالیسوں پر تنقیدکی خبریں آج کل اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔
انہیں اب پتہ چلا کہ گزشتہ حکومت کا بجٹ تزویری پیپر ملکی معیشت کی صحیح تصویر کشی نہیں کر رہا۔ مذکورہ پیپر نہ ملک کی پیداواری تذویر سے مطابقت رکھتا ہے نہ ملکی توانائی پالیسیہے، اگر کوئی ہے بھی تو وہ ناقص ہے جس کے تحت کئی سو ارب روپے توانائی کے شعبے کی سبسڈی کی مد میں جھونک دیئے گئے۔ تین سال تک ملکی معیشت کو چلانے والے گزشتہ حکومت کے باقیاتی عناصر نے اپنی پرکشش عہدوں کی مراعات کے مزے لئے،سیاسی قیادت کو دھوکے میں رکھا، اقتصادی خودکشی سے لے کر گزشتہ حکومت کے آخری ایام میں اقتصادی سونامی کو جاری رہنے دیا اور مکمل حمایت کی۔ لہٰذا یہ ٹیکنوکریٹ لوٹا عناصر ملکی معیشت کی تباہی میں حصہ دار رہے۔ اپنے گرو سابق وفاقی وزیر اور حکومت کے جانے کے بعد یہ عناصرسرگرم ہوگئے اور اپنی سابقہ حکومت اور سابق وفاقی وزیر خزانہ کو تمام معاشی امور پر ہدف تنقید بنارہے ہیں۔ یہی ٹیکنوکریٹ لوٹاعناصر کاوتیرہ ہے کہ سابقہ حکومت پر تنقید کرکے نگراں حکومت اور آئندہ حکومت میں قابل قبول بن جائیں اور جو وہ نہیں سمجھ پائے وہ یہ ہے کہ کامیابی کے کئی دعویدار ہوتے ہیں اور ناکامی کو کوئی نہیں پوچھتا۔ ان لوٹوں کی قابلیت کا اندازہ مذکورہ حقائق سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
سال 2012-13ء کا بجٹ پیش کرتے وقت ان لوٹوں نے ایف بی آر کا آمدنی کے محصولات کا ہدف 2381/ارب روپے مقرر کیا اور میں نے اپنے 25ستمبر2012ء کے آرٹیکل میں لکھا تھاایف بی آر رواں مالی سال محصولات کی مد میں 2150/ارب روپے سے زیادہ نہیں حاصل کر پائے گا۔9 ماہ بعد انہیں احساس ہوا کے آمدنی کے مقررہ اہداف غیر حقیقت پسندانہ تھے۔ انہوں نے اب آمدنی کے اہداف تبدیل کرکے2126/ارب روپے کردیئے ہیں جو کہ میری نظرمیں اب بھی غیر حقیقت پسندانہ ہیں،چونکہ گزشتہ پانچ برسوں میں ایف بی آر کے کام کی صورتحال میں تبدیلی واقع ہوئی ہے،2000/ارب روپے کے محصولات جمع کرنا بھی بہت بڑا معرکہ ہوگا۔ میں ان پر زور دوں گا کہ وہ اگلے بجٹ کیلئے ایف بی آر کی آمدنی کا ہدف 1985 سے 2000/ارب روپے رکھیں۔
ان عناصر نے بجٹ خسارے کا تخمینہ ملکی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا 4.7فیصد رکھا تھا جبکہ میں نے 25دسمبر2012ء کو اپنے کالم میں لکھا تھا کہ رواں مالی سال بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 8فیصدتک رہے گا۔ لوٹوں کو یہ بات سمجھنے میں 9ماہ لگ گئے کہ خسارہ اس حد تک پہنچ سکتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ یہ لوٹے چھ ماہ کے بعد میرے تجزیئے کو تسلیم کررہے ہیں۔ 25مارچ کو میں نے لکھا تھا کہ رواں مالی سال بجٹ خسارہ 9.5 سے10 فیصد تک رہے گا لیکن لوٹوں کو یہ بات سمجھ آنے میں چھ ماہ لگیں گے۔ میں مستقبل قریب میں وقوع پذیر ہونے والے قرضوں کی ادائیگی کے بحران کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی تیزی سے ختم ہورہے ہیں جن کا حجم 7/ارب ڈالر رہ گیا ہے جس میں2.3/ارب ڈالر کمرشل بینکوں سے لئے گئے ہیں لہٰذا اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے اصل ذخائر4.7/ارب ڈالر ہیں،صرف آئی ایم ایف کو30جون تک حکومت کی جانب سے9کروڑ5لاکھ ڈالر ادا کئے جانے ہیں، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر 3.8/ارب ڈالر کی سطح تک گر جائیں گے۔ اسٹیٹ بینک اور ان لوٹوں کے اطمینان کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ قوم قرض کی ادائیگیوں کے بحران کی منتظرہے کہ کتنی بری طرح یہ نقصان پہنچاتا ہے،شاید وہ ان بدترین حالات میں اس کے نتائج سے واقف نہیں ہیں۔ ہمیں یونان اور مصر کی مثالوں سے سبق سیکھنا چاہئے۔ یونان قرضوں کے بدترین بحران سے گزرا اور آئی ایم ایف اور یورپی یونین نے اس بیل آوٴٹ پیکیج کیذریعے اس سے باہر نکال لیا۔ تیل اور گندم درآمد کیلئے مصر کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔
مصرکی معیشت تیزی سے ابتری کا شکار ہورہی ہے۔ مصر آئی ایم ایف سے4.8/ارب ڈالر کا بیل آوٴٹ پیکیج حاصل کرنا چاہتا ہے مگر اب تک اس قرضے کی شرائط پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ میری نگراں حکومت سے اپیل ہے کہ وہ لوٹوں کے جھانسوں کا شکار نہ ہو، انہوں نے گزشتہ حکومت کو بھی دھوکے میں رکھا اور اب موجودہ نگراں حکومت کو بھی دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں اور اگر یہ اسی طرح اپنے عہدوں پر برقرار رہے تو یہ آئندہ حکومت کو بھی دھوکا دیں گے۔ کیا جوہری پاکستان کے زندہ رہنے کا یہی طریقہ ہے۔ قومی خزانے میں زرمبادلہ کے3.4/ارب ڈالر کے قلیل ذخائر کو دیکھ کر وحشت ہوتی ہے۔ یہ پاکستان کے حق میں نہیں۔ جاگیئے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، یہ میرا عاجرانہ مشورہ ہے۔
تازہ ترین