• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے قیام کے ساڑھے پینسٹھ برس بعد ایک بار پھر ملک کی قیادت بزرگوں کے پاس آگئی ہے، ویسے تو کالم کے ساتھ چھپنے والی اپنی تصویر سے میرا شمار بھی بزرگوں میں ہوتا ہے۔ نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو اور چیف الیکشن کمشنر صاحب کی طرح پنجاب کی نگرانی کا ہما بھی ایک بزرگ دانشور اور متوازن تجزیہ کار نجم سیٹھی کے سر پر بیٹھ چکا ہے، مجھے ان بزرگوں کے عزائم میں بڑا ولولہ اور تازگی دکھائی دے رہی ہے، ان سب نے ایکا کرلیا ہے کہ انتخابات غیرجانبدارانہ، شفاف اور مثالی کرانے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی کچھ ایسی چھلنیاں لگا دی ہیں کہ اس سے چھن کر جو کوئی صوبائی اور قومی اسمبلی تک پہنچے گا وہ سات سمندروں کے پانیوں سے دھلا ہوا صاف شفاف سمجھا جائے گا۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ بھی مکمل ہو چکا ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایڈیشنل سیکرٹری افضل خان نے کہا ہے کہ امیدواروں کی بے رحم جانچ پڑتال ہو گی۔ افضل خان چونکہ امیدواروں کے کاغذات کی اسکروٹنی کرتے ہیں اور ہم اہل قلم لفظوں کی اسکروٹنی کیا کرتے ہیں، اس لئے الیکشن کمیشن کی تصحیح کرتے ہوئے ہم عرض کریں گے کہ آپ اپنی پوری ایمانی قوت سے اور میرٹ پر جانچ پڑتال کریں مگر بے رحم نہ بنیں۔ اللہ کو گواہ جان کر کی گئی اس کڑی آزمائش سے گزر کر جو باکردار اور نوجوان قیادت ابھرے گی وہ یقیناً روشن پاکستان کی وارث کہلائے گی۔جنرل ضیاء الحق نے بھی پاکستان کیلئے نوجوان قیادت کا تجربہ کیا تھا مگر وہ جزوی طور پر ناکام رہے تھے کیونکہ ان کی تیار کردہ قیادت کے بعض کرداروں نے قوم کو مایوس کیا ہے۔ جن میں سید یوسف رضا گیلانی سرفہرست ہیں۔ نواز شریف ، میر ظفر اللہ خان جمالی ، حامد ناظر چٹھہ، چوہدری شجاعت حسین اور جاوید ہاشمی جنرل ضیاء الحق کی ہی تیار کی گئی قیادت تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی شناخت کا دور بھی وہی تھا مگر ان کی شہرت ضیاء مخالفت کی وجہ سے تھی جبکہ ایم کیو ایم کے الطاف حسین نے سیاست میں ایک نئے کلچر کو فروغ دیا جس کی وجہ سے وہ کراچی ، حیدرآباد اور میرپورخاص تک محدود ہو کر رہ گئے، قومی سطح کی قیادت نہ فراہم کر سکے۔ اگر جنرل ضیاء الحق دور کی اس نوجوان قیادت کا فرداً فرداً ایک سطری جائزہ لیا جائے تو محترمہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم رہیں اور دونوں بار آئین کی آٹھویں ترمیم کی شق اٹھاون2 بی کی زد میں آگئیں، ان کے اقتدار کا زیادہ وقت میاں نواز شریف سے جھگڑتے گزرا البتہ ایک قومی نوعیت کا کام بھی اسی دور میں ہوا کہ شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی گئی۔ حامد ناصر چٹھہ ضیاء الحق کے عبوری دور اور محمد خان جونیجو کی کابینہ میں اطلاعات کے وفاقی وزیر تو رہے مگر قابل ذکر کام نہ کرسکے اور مسلم لیگ جونیجو گروپ کی بھی پرورش نہ کر سکے۔ جاوید ہاشمی کے پاس بس صحت کی وزارت ہی رہی، چوہدری شجاعت حسین نرم خو ضرور ہیں مگر ان کی ساری سیاست جوڑ توڑ کے مدار میں چکر لگاتی نظر آتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھ مضبوط کرنے کا سہرا بھی چوہدری برادران کے سر ہے۔ این آر او تحفہ بھی چوہدریوں کی مشاورت سے قوم کو دیا گیا، لال مسجد کا سانحہ بھی چوہدری صاحبان کی حکمت عملی کا شاہکار ہے۔ 14جنوری2013ء کے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کی ہدایت کاری بھی چوہدری شجاعت حسین کی تھی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک گملا نہیں ٹوٹا لیکن اس کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا کہ چار دن تک اسلام آباد کا اسٹاک ایکسچینج بند رہا،GPO اور دیگر ترسیل کے ادارے اسکول کالج ، منی چنجر ، بینک بلکہ پورا کاروباری علاقہ بلیو ایریا بند رہا صرف ایک گملا نہیں ٹوٹا تو کیا ہوا، معیشت تو برباد ہوئی نا۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی، یہ بالکل وہی فارمولا ہے جو یار لوگوں نے محبت اور جنگ کے لئے بنایا ہوا ہے، حالانکہ دوستی کے بھی آداب ہیں اور دشمنی کے بھی اصول ہوتے ہیں بہرطور نواز شریف بھی محترمہ کی طرح دو مرتبہ وزیراعظم رہے مگر دونوں بار اپنے مزاج کی تیزی ، عدم تحمل اور برداشت کے فقدان کی وجہ سے ہیوی مینڈیٹ سمیت حکومت سے محروم ہوئے جلاوطنی گزاری مگر ان کا بھولا پن اسی طرح برقرار رہا، البتہ میاں صاحب کے دونوں ادوار میں دو قومی سطح کے کام بھی ہوئے، موٹر وے کی تعمیر اور ایٹمی دھماکے ، قوم کوشش بھی کرے تو ان کے اس احسان کو فراموش نہیں کرسکتی۔
میر ظفر اللہ خان جمالی کا ایک احسان بھی قوم کو یاد ہے، انہوں نے وزارت عظمیٰ سے علیحدہ ہونا قبول کرلیا مگر جنرل پرویز مشرف کی خواہش پر محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے نہ کیا، میرے چونکہ جمالی صاحب سے دیرینہ دوستانہ مراسم ہیں اور میں نے جب ان سے گلہ کیا کہ آپ کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ڈاکٹر خان پر عرصہ حیات تنگ ہوا تو اس کے جواب میں جمالی صاحب نے انکشاف کیا کہ ”سی ون تھرٹی“ تیار کھڑا تھا مگر میں نے EXIT پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا“۔ میں نے اپنے 14 نومبر2009ء والے کالم جس کا عنوان تھا ”C,130 تیار کھڑا تھا“ میں اس واقعے کی تفصیل دی تھی بعد میں اس کالم پر بہت خبریں بنیں اور آج تک گاہے گاہے اس کا ذکر آتا رہتا ہے۔ بات موجودہ نگران سیٹ اپ سے شروع ہوئی تھی اور جنرل ضیاء الحق تک چلی گئی۔ موجودہ انتخابی مہم کے دوسرے مرحلے سے بھی گزر کر تیسرے چوتھے اور آخری مرحلے اقتدار کی منتقلی کی نوبت بھی آجائے گی یقینا نگرانی کے اس دور میں نوجوان نسل کو ایک ایسے رستے پر ڈال دیا جائے گا جو انہیں ان کی گم کردہ منزل تک لے جائے گا مگر نگران کتنی ہی دیانت کا مظاہرہ کریں، الیکشن کمیشن پوری ایمانی قوت کا اظہار بھلے کرے شفافیت میں نکھار اور قیادت کا وقار ووٹر کے حق رائے دہی کے صحیح استعمال میں پوشیدہ ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ اس نے خواب میں کلین سوئیپ دیکھ لیا اور خود کو وزارت عظمیٰ پر متمکن پایا۔ نئی بات نہیں اس قسم کے خواب لوگوں نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی دیکھے تھے۔ اب خواب نہیں حقیقت میں تبدیلی کا دور ہے، اگر کوئی گدھا گاڑی پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے آیا تو متاثر ہونے کی ضرورت نہیں اس قسم کے دنوں میں امید وار خود بھی گاڑی کے آگے بندھنے کیلئے تیار ہوتے ہیں، تبدیلی آچکی ہے فاٹا کے حلقہ NA44 سے بادام زری نے اور ضلع دیر لوئر کے حلقہ این اے 34 سے تحریک انصاف کی نائب صدر محترمہ نصرت بیگم نے آزاد حیثیت میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ یہ تبدیلی ہی تو ہے، بیداری اور معاملہ فہمی بھی۔ الیکشن کمیشن تو حکمت عملی اور پروگرام کے مطابق کام جاری رکھے ہوئے ہے مگر نگران سیٹ اپ فی الحال پوری طرح فعال نہیں ہوا جبکہ وقت بہت تھوڑا ہے۔ چند دیانتدار صورتیں گھروں میں پڑی رہ گئی ہیں ان سے بھی نگرانی کا کام لیا جاسکتا ہے، خوشاب میں ملک نسیم احمد آہیر ہیں ان کے وفاقی وزیر تعلیم ہوتے ہوئے بیٹوں کو اسلام آباد کے کالج میں داخلہ نہ ملا تو انہوں اپنے صوابیدی کوٹے کا حق استعمال نہ کیا اور بیٹے کو پرائیویٹ ادارے میں داخل کرادیا۔ اقلیتی رہنما جے سالک کا شمار بھی دیانتدار لوگوں میں ہوتا ہے۔ آخری بات شہزاد اعوان آج کل ملتان میں ہوتے ہیں تحصیل و ضلع سرگودھا کے قصبے75 شمالی میں اپنی آبائی زمین سے دو ایکڑ یعنی 16کنال اراضی کسی ایسے ادارے، فلاحی تنظیم NGO کو عطیہ کرنا چاہتے ہیں جو ایک مثالی تعلیمی ادارہ بنا سکے۔ علم و نور کی یہ سبیل انہیں مرنے کے بعد بھی زندہ رکھے گی۔
تازہ ترین