• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:رفیعہ ملاح
رجسٹرار پرائیویٹ اسکولز سندھ
2003کی بات ہے میں چند سہیلیوں کے ساتھ حیدرآباد سے خواتین کی ایک این جی او کی طرف سے کراچی میںان دنوں بطور Ombuds Person ذمہ داریاں نبھانے والی میڈم مہتاب اکبر راشدی سے ملنے آئی تھی ۔ملاقات کے بعد ہماری ساتھی روحی نے جو مسرور زئی کی منہ بولی بہن تھیں، کہا کہ یہیں موجود ایڈیشنل سیکرٹری پروفیسر انوار احمد زئی سے بھی مل لیتے ہیں ان سے گھریلو تعلقات ہیں۔ یہ ان سے پہلی ملاقات تھی۔ ان کی علمی اور ادبی گفتگو نے بہت متاثر کیا اور میں نے اپنی Colleaguesسے کہا کہ کیوں نہ ہم ان کو مہمان خصوصی بنایا جائے۔ ان سے دوسری ملاقات ان کے چیئرمین میرپورخاص بورڈ بننے کے بعد ہوئی، میں نئی نئی محکمہ تعلیم میں آئی تھی۔ ان کی عزت اور احترام میری نظروں میں اس وقت بڑھ گیا جب سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد بورڈ کا سنگ بنیاد رکھنے آرہے تھے لیکن اس وقت بھی زئی صاحب نے مین گیٹ پر میرا استقبال کیا اور سر پر ہاتھ رکھ کر مجھے بیٹیوں کی طرح عزت دی، انہوں نے بے پناہ محبت کا اظہار کیا کہ میں وہاں آئی ہوں۔ میرا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ان کا مرتبہ کتنا اونچا تھا۔ وہ جہاں بھی رہے وہ انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی ہو یا ضیاء الدین بورڈ پرتپاک طریقے سے ملتے اور عزت دیتے۔ پروفیسر انوار احمد زئی وہ واحد بیورو کریٹ تھے جس کو عالمی ادب، شاعری، کرنٹ افیئرز، بین الاقوامی مذاہب، پاکستانی ادب و علم پر دسترس حاصل تھی۔ وہ اچھے نثر نویس ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے تجزیہ کار بھی تھے۔ بورڈ آفس میں اکثر مجھے اپنے افسانے سناتے جوکہ آج بھی یاد ہیں جب بھی کوئی ڈیپارٹمنٹل پروگرام منعقد کرنا ہو تو ہمیشہ میں اور میرے ساتھی اخلاق احمد ان سے مشورے کرتے، آفس کے کام میں کوئی مدد درکار ہو یا کچھ چیک کروانا ہو اس کے علاوہ اگر کوئی گھریلو مسئلہ ہو تو بھی ان سے مشورہ کرتے ۔ وہ رہنمائی فرماتے تھے۔ ہمیشہ میں نے ان کو سیکھاتے ہوئے بہت خوش پایا۔ طبیعتاً سادہ سا انسان جو کہ نہ مہنگے کپڑے پہنتے نہ زیادہ خرچ کرتے وہ ہمیشہ کوشش کرتے کہ اپنے آپ کو لکھنے لکھانے اور مطالعے میں مصروف رکھیں زمانے کے اتار چڑھائو ہر نیک سیرت انسان کے حصے میں آتے ہیں جب بھی کوئی مشکل صورت ان کے حصے میں آئی میں نے دیکھا وہ اپنےآپ کو قلم سے مصروف رکھتے، آخری ملاقات 18؍ویں روزے پر ہوئی اس وقت انہوں نے ناول لکھ کر پورا کیا اور بتا رہے تھے کہ جلد ہی اس کو چھپوائوں گا اور ساتھ ہی ساتھ بتایا کہ وہ ایک فلسفے پر طویل مکالمہ لکھ رہے ہیں جوکہ دنیا بھر کے فلسفوں کا نچوڑ ہے وہ مجھ سے اخلاق سے اور اہم لوگوں سے دل کھول کر ادب اور حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے کیونکہ ان کو پتا تھا کہ ہم ان سے نہ صرف سیکھتے ہیں بلکہ یہ چیزیں سمجھتے بھی ہیں۔ علم و ادب اور دوستوں کے علاوہ ان کی ہمہ گیر شخصیت کا تیسرا پہلو بہت ہی عمدہ پایا وہ تمام تر مصروفیت کے باوجود جہاں لکھنے سے باز نہیں رہ سکتے تھے وہاں اپنے پورے خاندان کو ایک لڑی میں پرو کررکھنا ان کا کمال تھا۔ خاندان میں بھائیوں، بہنوں ، ان کے بچوں، نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو ماننا اور مواقع فراہم کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ میں نے بورڈ میں اکثر دیکھا کہ انہوں نے اپنی نواسی سعدیہ کی کس قرینے سے ادبی اور علمی پرورش کی سعدیہ مقامی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے لیکن وہ زئی صاحب کی ذات کا مظہر ہے اپنے خاندان کے بچوں میں پڑھنے پڑھانے لکھنے لکھانے کا شعور بیدار کیا وہاں قوم کے بچوں کیلئے بھی تقریری مقابلے کروانا، مضمون نویسی کروانا، لائبریری ڈے منانا جیسے اقدامات اٹھائے ۔ مذہبی پہلو دیکھئے تو ان کو تمام مذاہب پر دسترس حاصل تھی میری نظر میں وہ ایک زندہ انسائیکلوپیڈیا تھے۔ جس بھی موضوع پر پوچھتے وہ شروع ہوجاتے تھے۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا ۔ طنزومزاح میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ وہ واحد انسان تھے جس نے دو نئے تعلیمی بورڈ تخلیق کئے اور چار بورڈز کے چیئرمین رہے۔ پروفیسر انوار احمد زئی کے اس دنیا سے جانے کی خبر پر اعتبار نہیں آرہا ، وہ بے حد شفیق انسان تھے۔ پیار سے ہنستے ہنساتے بات سمجھاتے تھے ان کے جانے کی خبر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ وہ عہد ساز شخصیت تھے ان کا خلا کوئی اور پورا نہیں کرسکتا، اللہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے(آمین)۔
تازہ ترین