• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ عمارتیں ، جیسا کہ گنبد، مینار، چاردیواری اور بیرونی دیوار، کچھ اشیاء کے اضافے سے خوبصورت ہوجاتی ہیں جبکہ کچھ عمارتوں کی زیبائش میں اُس وقت اضافہ ہوتا ہے جب اُن کے گرد لگی غیر ضروری اشیاء کو ہٹا دیا جائے۔ کچھ خواتین میک اپ میں اچھی لگتی ہیں کیونکہ اُن کی ذاتی دلکشی ہو نہ ہو، میک اپ اُنہیں حسین و جمیل بنا دیتا ہے ۔ تاہم ، جیسے حسن ِ معانی کو مشاطگی کی ضرورت نہیں ہوتی، اُسی طرح کسی پری پیکر نگار کو بھی مشاطہ کی احتیاج نہیں ہوتی۔ بس منہ دھو لیااور پھر ، جیسا کہ حضرت امیر خسرو فرماتے ہیں․․․ ”شکر ریزی اگر در خندہ باشی“۔
پاکستان کا شمار اس دوسرے گروہ میں ہوتاہے۔ اسے اچھا لگنے کیلئے کسی اضافی نئی چیز ، جیسا کہ ”میگا پراجیکٹس “ اور بدیسی منصوبوں، کی نہیں بلکہ کچھ تراش خراش، کچھ نوک پلک درست کرنے اوردھرتی سے پھوٹنے والے رنگوں سے گلکاری کی ضرورت ہے تاکہ اس کا قدرتی حسن آشکار ہوجائے۔ یہ ملک پہلے ہی ”حسن بے پروا “ سے مالا مال ہے، ضرورت صرف فالتو چیزیں ہٹانے کی ہے تاکہ اس کا اصل روپ اور قدرتی دلکشی کھل کر سامنے آجائے۔ یہ محبت اور ولولہ انگیز داستانوں کی سرزمین کسی مصنوعی میک اپ کی محتاج نہیں ہے۔ جب اس دھرتی میں ابھرنے والے مختلف خطوط پر غورکریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہاں صرف پہاڑی سلسلے ہی نہیں دنیا کے بلند ترین پہاڑ ، گہری وادیاں، ہمالیہ کے رومانوی دامن سے لے کر سمندر کے افتادہ ساحل تک پھیلے ہوئے وسیع میدان ، چولستان اور تھر کے زرد صحرا، مکران کا پرشکوہ ساحل، جہاں واپسی کے سفر میں سکندرِ اعظم کی فوجوں کا بھاری نقصان ہوا تھا، بلوچستان کے پہاڑ اور پنجاب کے دریا دھرتی کے جغرافیائی خدوخال تشکیل دیتے ہیں۔ اس سرزمین میں تہذیب نے جنم لیا۔ یہاں کی وادی سندھ یونان اور روم سے بھی قدیم ہے۔ اس سرزمین پر کون سے شاہ سواروں کے قدموں کے نشان ثبت نہیں ہیں؟ کن بہادروں کے چہرے اس دھرتی سے اٹھنے والی گرد سے آلودہ نہ ہوئے ؟آریہ، منگول، تاتاری اور یونانی جنگجو اسی راستے سے گزرے ۔ پاکستانیوں کے چہروں پر ہر نسل کے نقوش ہویدا ہیں۔ ہم مختلف زبانیں بولنے والے مختلف لوگوں کی نسلوں میں سے ہیں۔ یہ جغرافیائی اور نسلی تنوع ہماری کمزوری کی بجائے ہماری قوت ہونا چاہئے تھا۔ یہ آج بھی ہماری قوت بن کر ہمارے دست و بازو مضبوط کر سکتا ہے ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے قومی سفر کو از سر ِ نو شروع کریں۔تاہم آج اگرسوال کیا جائے کہ ہمارے قومی خواص کیا ہیں توافسوس، یہ عدم برداشت اور آئین شکنی کے سوااور کچھ بھی نہیں ہیں۔ بعض اوقات ہماری حماقتوں کے دفتر الف لیلیٰ کو چیلنج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگرہم پرانی تہذیب کے وارث ہیں تو کیا آج ہمارے افعال شاندار ماضی کی غمازی کرتے ہیں؟ ہم تاریخ کے مطالعے سے اتنے متنفر کیوں ہیں؟ہم اپنے حال کا جائزہ لینے سے قاصر کیوں ہیں؟ہم ، جو پیچیدہ نظریاتی اور آفاقی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں، زمینی مسائل سے غافل کیوں ہیں؟ ہم دنیاوی معاملات کا سامنا کرتے وقت شتر مرغ کیوں بن جاتے ہیں؟ایران کے سوا کس ملک کے آئین میں پارلیمنٹ کا رکن بننے والے امیدواروں کا اخلاقی کردار جانچنے کیلئے اس قدر شقیں، جیسا کہ باسٹھ اور تریسٹھ ، موجود ہیں ؟ایران میں تو امام خمینی تھے ، ہمارے ہاں آئین میں یہ شقیں امام ضیا الحق نے شامل کیں۔ ضیاء دور کے خاتمے کے بعد آنے والی کسی جمہوری حکومت میں اتنا دم خم نہ تھا کہ وہ ان قوانین کے خاتمے کی کوشش کرتی۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کو مذہب کا لبادہ پہنایا گیا تھا۔ رخصت ہونے والی قومی اسمبلی کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر جواب دینا پڑے گا کہ اُس نے مدت پوری کرنے کے باوجود آئین کی درستی کا عمل شروع کیوں نہیں کیا؟ضیا الحق اور آئین میں شاید اتنی ہی دوری تھی جتنی مغرب اور مشرق میں ہوتی ہے، لیکن ہم ابھی بھی ان تضادات کو دور نہیں کرپائے ہیں۔
اگر مسٹر جناح آج اس وطن میں تشریف لے آئیں تو کیا وہ اپنے تخلیق کردہ ملک کو پہچان سکیں گے ؟اگر کسی ذرّے سے اُنہیں پاکستانیت کی رمق دکھائی بھی دے جائے توکیا وہ اس کو دیکھ کر خوشی سے پھولے سمائیں گے ؟عقل حیران ہے قائد آئین کے آرٹیکلز 62-63 ، اور نام نہاد مفتیان ِ وقت کی طرف سے ان کی من پسند تشریح کو کس نظر سے دیکھتے ؟ٹھیک ہے کہ کم عقل اور احمق ہر معاشرے اور ہر دور میں ہوتے ہیں، چنانچہ ہمارے ہاں بھی ہیں، لیکن دیگر قومیں اُن کے ہاتھ زمام ِ اختیار ہماری طرح نہیں تھما دیتیں۔ اگر پاکستان کا مقدر سنوارنا ہے تو ان معاملات کو حل کرنا پڑے گا ؟آئین میں کی گئی ان تبدیلیوں، جنھوں نے اس کا حلیہ تبدیل کر دیا ہے، سے ہم کب تک اغماض برت سکتے ہیں؟حال ہی میں کی جانے والی اٹھارویں ترمیم اس کیلئے بہترین موقع تھی ۔ قومی اسمبلی کے سامنے نہایت آسان حل موجود تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ضیا دور میں کی گئی تمام ناروا ترامیم کو آئین سے نکالا جائے… صرف 62-63 ہی نہیں بلکہ باقی بھی بہت سی۔کام مشکل نہیں تھا لیکن اس کے لئے حوصلے اور تخیلات کی ضرورت تھی اور افسوس، ان دونوں چیزوں کی ہی مسٹر رضا ربانی کی کمیٹی میں کمی تھی۔ وقت آنے پر اس کے اراکین کاغذی شیر ثابت ہوئے۔ اُنھوں نے سب چیزوں، اُن پر بھی جن کی فی الحال ضرورت نہیں تھی، پر توجہ دی لیکن افسوس، اُن شیروں کی عقابی نظروں کو یہ شقیں دکھائی نہیں دیں۔ پاکستان میں اخلاقی حوصلے کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ ہم بطور قوم مسلسل کمزوری دکھارہے ہیں جبکہ انتہا پسندی کی قوتیں پیش قدمی کررہی ہیں۔ تاہم اگر ہم پاکستان کے چہرے پر پڑی اس دھول کو دھونا چاہتے ہیں تو ہمیں ان ترامیم کی طرف قدم بڑھانا ہو گا۔ ایسا کرتے ہوئے سماجی حسن کے ساتھ ساتھ تاریخ کی راہوں کو بھی درست کرنا ہے کیونکہ ہم منزل سے بہت دور بھٹک آئے ہیں۔ اگر1977 میں مارشل لا نہ لگتا تو کراچی دوبئی بن چکا ہوتا اور انتہا پسندی اور تنگ نظری کی قوتوں کو سراٹھانے کا موقع نہ ملتا۔ بھٹو صاحب میں بھی خامیاں تھیں ، جیسا کہ مذہب کے بارے میں غیر ضروری تبصرے کرنا، اور بہتر ہوتا وہ ان سے احتراز کرتے، لیکن سوچ اور عمل کی دقیانوسیت سے فروغ پانے والی تاریک قوتوں کو ان کے دور میں معاشرے میں قدم رکھنے کا موقع نہ ملتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انڈیا پر افغانستان کی طرف سے بہت سے حملہ آور وں نے یلغار کی، تاہم کوئی بھی یلغار اس سرزمین پر اتنے پکے اور دیر پا نقوش نہیں چھوڑ سکی جتنی ضیا ء دور میں افغان سرزمین سے اس وطن میں سرائیت کرجانے والے انتہا پسندوں اور جہادی قوتوں کے نظریات۔ یہ تاریخ کی ستم ظریفی تھی کہ ہمارے دفاعی اداروں کے بعض افسران نے افغانستان میں اپنے لئے اسٹریٹجک گہرائی کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے نتیجے میں انتہا پسندقوتوں نے ہماری جڑوں کو ہی کھوکھلا کر دیا۔
اس وقت ہمارے سامنے امید کی ایک کرن ہے۔ وہ لوگ جنھوں نے اس وطن کوحاصل کیا اور ان کی اولاد انتہا پسند نہیں ہیں ۔ وہ آج سے دس ہزار سال بعد بھی انتہا پسندانہ نظریات کو نہیں اپنائیں گے۔ پاکستان میں مروج اسلام بر ِ صغیر کا اسلام ہے، اسے انتہا پسندانہ نظریات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہمارا اسلام وہ ہے جسے حضرت علی ہجویری، حضرت معین الدین چشتی اور حضرت نظام الدین اولیا  کی انسان دوستی اور روحانی اور اخلاقی عظمت نے پھیلایا۔ وہ اسلامی کلچر جو انڈیا میں پھیلا اور جس کی طاقت کا ارتکاز دہلی میں دیکھنے میںآ یا، وہ اسی دیس کے رویوں کا عکاس تھا، بالکل جس طرح ترکی میں پروان چڑھنے والی اسلامی قدریں ترک معاشرے کا آئینہ دار تھیں۔ باقی ممالک میں بھی یہی صورت ِ حال دیکھنے میں آئی۔ اس پس ِ منظر میں سی آئی اے کی پشت پناہی سے وجود میں آنے والی انتہا پسندی کی قوتیں ، جن کو ضیا دور میں ہمارے معاشرے میں پنجے پھیلانے کا موقع مل گیا، کا بنیادی طور پر جنوبی ایشیا کے اسلامی کلچر سے کوئی سروکار نہ تھا۔ یہ زندہ دل لوگوں کی دھرتی تھی اور لوگ یہاں لعل شہباز قلندر کے آستانے پر مست ہوکر دھمال بھی ڈالتے تھے اور اجمیر شریف میں قوالی پر جھومتے بھی تھے، لیکن ایک برادر اسلامی ملک کے ریگزاروں سے آنے والے عقیدے کو یہ زندہ دلی نہ بھائی۔ آج ہم جس نظریہ ٴ پاکستان کی تشریح میں الجھے ہوئے ہیں وہ کیا ہے؟وہ علامہ اقبال اور محمد علی جناح کے نظریات کے سوااور کیا ہے ؟کیا وہ نظریہ دستور ساز اسمبلی سے قائد کے گیارہ اگست 1947کے خطاب کے علاوہ بھی کچھ ہے؟اس کے سوا باقی تمام تشریحات اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے مترادف ہیں۔
تازہ ترین