• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہاکی کے قومی ہیرو اختر رسول نے بڑی جذباتی فضا پیدا کر دی تھی۔ 11مئی کے عام انتخابات کے لئے اس نے بھی لاہور کے ایک حلقے سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے لئے درخواست دی تھی۔ گزشتہ ڈیڑھ ہفتے سے مسلم لیگ ن کے مرکزی سیکریٹریٹ ماڈل ٹاوٴن میں پارلیمانی بورڈ کے اجلاس جاری ہیں۔ شیڈول کے مطابق مختلف علاقوں سے امیدوار موجود ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اپنی باری پر کھڑے ہوتے اور ٹکٹ کے لئے اپنے استحقاق کی بات کرتے ہیں۔ کوئی چاہے تو اپنے مد مقابل کی”ڈی میرٹس“ بھی بیان کر سکتا ہے لیکن نوبت بدمزگی اور کشیدگی تک نہیں پہنچتی اور خوشگوار ماحول میں کارروائی آگے بڑھتی رہتی ہے۔ میاں نواز شریف عام حالات میں معاملات کو سر پر سوار نہیں کرتے، ایسے میں ان کا رویہEasy go کا ہوتا ہے لیکن کوئی چیلنج درپیش ہو تو وہ کوئی کوتاہی اور سستی روا نہیں رکھتے۔ فولاد کا کاروبار کرنے والے خاندان کا یہ سپوت تب فولادی اعصاب کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہی معاملہ ہم ان دنوں بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہ صبح دس ، ساڑھے دس بجے ماڈل ٹاوٴن پہنچ جاتے ہیں اور نماز(اور لنچ) کے وقفوں کے ساتھ بارہ ، تیرہ گھنٹے مصروف رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک اجلاس میں مبصر کے طور شرکت کے بعد شامی صاحب کا کہنا تھا کہ انہیں اوپن ڈسکشن اور میرٹ پر فیصلوں کا یہ کلچر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اسی اجلاس میں فیصل آباد کے ایک دردمند کارکن نے (جو ٹکٹ کا امیدوار نہیں تھا)اپنے ضلعے میں مسلم لیگ کے دو دھڑوں کے درمیان محاذ آرائی پر شدید تنقید کی۔ ان دھڑوں سے وابستہ قد آور شخصیتیں موجود تھیں لیکن مسلم لیگی کارکن کے دلِ دردمند کی پکار کے دوران انہوں نے کوئی مداخلت نہ کی۔ ان اجلاسوں میں امیدوار ٹکٹ کے لئے اپنا استحقاق تو جتاتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کہ ٹکٹ جسے بھی ملے گا وہ سب اس کے لئے تن من دھن سے جدوجہد کریں گے کہ وہ اپنی قیادت پر اعتماد اور اپنی جماعت سے وفاداری رکھتے ہیں۔
انہی دنوں کپتان کی تحریکِ انصاف میں ٹکٹوں کے مسئلے پر غدر کی کیفیت ہے۔ اسلام آباد کے مہنگے ترین ہوٹل میں گزشتہ دنوں منعقدہ پارلیمانی بورڈ کے اجلاس کے دوران، ہوٹل کی لابیوں میں جو کھلی گفتگوئیں سننے میں آئیں وہ حیران کن تھیں۔ جنہیں ٹکٹ کی امید نہ رہی، کپتان پر اثرانداز ہونے والی بعض شخصیتوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان سے کروڑو ں روپے وصول کئے اور اب اپنے موبائل فون بند کئے بیٹھے ہیں۔ ان میں اپنی کالم نگار برادری کی دو، تین بڑی شخصیات کا نام بھی آرہا تھا۔ انصاف کی علمبردار اور تبدیلی کی دعویدار اس جماعت میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے خود کپتان کے مدح سرا کی تازہ سطور ملاحظہ ہوں۔ ”دل ہے کہ بجھ گیا ہے“ کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں، میرا دکھ یہ ہے کہ میں نے تحریکِ انصاف میں ٹکٹوں کے بٹنے کا منظر قریب سے دیکھا ہے، خوشامدیوں اور ریاکاروں کے جمگھٹے دیکھے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہترین کی مخالفت اور ادنیٰ کی ستائش کی جاتی ہے…اگر کپتان کی پارٹی کا حال یہ ہے تو کاروباری سیاست کرنے والوں کا حال کیا ہو گا؟ کپتان اوراس کی تحریک کے لئے خیرخواہی کا جذبہ رکھنے والے ہمارے ایک دوست نے ملتان کے علاقے میں ٹکٹوں کی تقسیم کو موضوع بنایا ہے۔ ان کے بقول ، ضلع بھر کے پرانے کارکنوں کا جمہوری مینڈیٹ دو ”مخدوموں“ (جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی) نے اغوا کر لیا ہے۔
بات اختر رسول سے شروع ہوئی تھی۔ لاہور کے ایک حلقے سے ٹکٹ کے امیدوار کے طور پر وہ بھی مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں موجود تھا۔ نواز شریف نے نام پکارا ، اختر رسول کھڑا ہوا ۔ یوں لگتا تھا بات کرنا مشکل ہو رہی ہو۔ پھر اس نے خود کو سنبھالا اور گویا ہوا، جناب! میں یہاں ٹکٹ لینے نہیں آپ کو منانے آیا ہوں ۔ اپنے حوالے سے آپ کی رنجش دور کرنے آیا ہوں۔ اختر رسول نے یہاں بابا بلھے شاہ کا سہارا لیا، یار کو منانے کے لئے پاوٴں میں گھنگرو باندھ کر ناچنا بھی پڑے تو اس میں کوئی عار نہیں۔ میاں صاحب کی نظریں اختر رسول کے چہرے پرجمی تھیں۔ جس پر ملال کی گہری پرچھائیں رقصاں تھیں۔ بھرائی ہوئی آواز میں اختر رسول کا کہنا تھا، آپ نے مجھے بہت محبت دی، مجھ پر اعتماد کیا، مجھے متعدد بار اسمبلی کی رکنیت اور وزارت سے سرفراز کیا۔ اب مجھے آپ سے اور کچھ نہیں صرف محبت چاہیے۔ انہوں نے یہاں نور جہاں کے پنجابی گیت کو اظہار کا وسیلہ بنایا، تیرے ملنے نوں آئی کنےّ چا کر کے، آ سینے نال لگ جا ٹھاہ کر کے۔ (میں تیرے ملنے کے لئے کتنی چاہتوں کے ساتھ آئی ہوں، اب مجھے زور سے سینے سے لگا لے) اختر رسول میاں صاحب کی طرف لپکا جنہوں نے اپنا سینہ کشادہ اور بازو وا کر دیئے تھے۔ میاں صاحب کا کہنا تھا، اختر رسول ان لوگوں میں سے تھے جن سے میں نے بہت پیار کیا، بہت اعتماد کیا۔ کسی سے آپ کو جتنا پیار ہوتا ہے، اس کی ناروا حرکت پر دکھ بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے۔ لیکن اب میں نے اختر رسول کو گلے لگا لیا ہے تو پرانی تمام رنجشیں ختم۔
یہ وفا کی کہانی کا ایک ناخوشگوار باب تھا۔ 12 اکتوبر 99 کے بعد اختر رسول بھی ان لوگوں میں سے تھا جو مشکل وقت میں اپنے لیڈر، اپنے دوست کے ساتھ کھڑا نہ رہا۔ اس حد تک بھی شاید گوارہ ہوتا لیکن وہ تو مخالف سمت جا کھڑا ہوا تھا۔ انسان دشمنوں کے نرغے میں سنگ باری کی زد میں ہو تو دوست کا پھول بھی پتھر سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ہمیں میاں صاحب کی جلاوطنی کے دوران جدہ کے سرور پیلس کی وہ دوپہر یاد آئی۔ ہم ان خوش نصیبوں میں سے تھے جن کا نام پیلس کے استقبالیہ پر موجود ”ضیوف الرئیس“ کی اس فہرست میں شامل تھا جو کسی بھی وقت آجا سکتے تھے۔ میاں صاحب اپنے دفتر میں ورق گردانی میں مصروف تھے۔ انہوں نے کتاب بند کی، ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے دوران ہم نے پوچھا، پاکستان میں اسیری کے دوران سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحہ کونسا تھا؟ ہمارا خیال تھا کہ وہ ان چالیس دنوں کا ذکر کریں گے جب وہ ایک ایسی کال کوٹھری میں تھے جہاں سورج کی کرن بھی داخل نہ ہوسکتی تھی اور بیرونی دنیا سے ان کا رابطہ مکمل طور پر منقطع تھا یا پھر وہ واقعہ جب انہیں جہاز کے اندر بھی ہتھکڑی لگا کر سیٹ کے ساتھ باندھ دیا گیا یا اٹک کے قلعے کی خوفناک راتیں اور تپتی ہوئی دوپہریں۔ ڈکٹیٹر نے ایک بار عالمِ سرمستی میں کہا تھا ، میں اسے سیاسی طور پر برباد، اقتصادی طور پر تباہ اور اعصابی لحاظ سے مفلوج کر دوں گا۔ ہمارے لئے میاں صاحب کا جواب خاصا غیر متوقع تھا۔ وہ ابھی اٹک قلعے میں ہی تھے جب ڈکٹیٹر کی سیاسی ضرورت کے تحت ایجنسیوں نے ق لیگ تخلیق کی جس میں میاں صاحب کے کچھ ”یارانِ طرحدار “ پیش پیش تھے۔ تب مسلم لیگ ہاوٴسوں پر قبضے کا آغاز ہوا۔ ابتدا اسلام آباد سے ہوئی۔ مسلم لیگ ہاوٴس پر قبضے کے بعد میاں صاحب کی تصویریں دیواروں سے اتار پھینکی گئیں۔ اگلے روز اخبارات میں تصویر شائع ہوئی۔ میاں صاحب کی تصویریں فرش پر بکھری ہوئی تھیں اور ق لیگ کے بانی قائدین ہاتھوں کی انگلیوں کے ساتھ فتح کا نشان (V) بنا رہے تھے۔ خورشید ندیم کا جنگ میں شائع ہونے والا کالم یاد آیا، ابو الکلام آزاد نے کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ وہ زندہ ہوتے اور یہ تصویر دیکھتے تو کہتے ، سیاست کی آنکھ میں حیا بھی نہیں ہوتی۔
تازہ ترین