• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فارسی کے محاورے ”خا نہ ٴ خالی را دیو می گیرد “ کا پرانا مفہوم تو سبھی جانتے ہیں کہ خالی گھر میں جن بھوت بسیرا کر لیتے ہیں۔ اس کا نیا مطلب یہ ہے کہ بیلٹ پیپر میں ایک خالی خانہ شامل کرنے سے جمہوریت کا خانہ خراب ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنی ٹوپی سے ایک ایسا کبوتر برآمد کیا ہے جس کا کوئی اور چھور نہیں۔ صاحب یہ مطالبہ انتخابی عمل میں شریک کس سیاسی جماعت یا جمہور پاکستان کے کس طبقے نے کیا؟ شاید کینیڈا سے آنے والے سنیاسی بابا نے ریاست بچانے کے نام پر سیاست کرنے کیلئے کیا ہو۔ طاہر القادری کی سیاسی پونجی تو اس قدر اوچھی ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے کا حوصلہ بھی نہیں کر سکے۔ دہلیز پہ کھڑے اندر جھانکتے رہے کہ شاید کوئی مہربان ہو کر بلالے۔ بیلٹ پیپر میں خالی خانے کا شوشہ چھوڑنے کا مقصد سیاسی قیادت کو بدنام کرنا ہے۔ جمہوریت دشمن قوتیں ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ سیاست داں عوام کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جسے کسی کو ووٹ نہیں دینا وہ اپنے گھر سے نکلے ہی کیوں۔ کیا وہ شادی کے منڈپ میں یہ نعرہ بلند کرنے آئے گا کہ یہ شادی نہیں ہو سکتی۔ کوئی ایسا ہی دودھ کا دھلا ہے تو ناکردہ کار ، نااہل اور بددیانت امیدواروں کی بجائے خود انتخاب میں حصہ کیوں نہیں لیتا ۔انتخابی عمل تو بذات خود اجتماعی فراست اور مشاورت کے ذریعے امیدواروں کی چھان بین کا عمل ہے۔ ووٹ میں خالی خانے کی نظیر بنگلہ دیش، کولمبیا اور یونان سے برآمد کی گئی ہے۔ جمہوریت کو ٹھکانے لگانا مقصود ہو تو ہمارے کولمبس بحر منجمد شمالی بھی جا پہنچیں گے ۔
ہمارے تاریخی تناظر میں تو زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ ایک خالی خانے کی بجائے چار خانے بنائے جائیں اور ان میں چار فوجی آمروں کی تصویریں جڑ دی جائیں تاکہ شفاف طریقے سے طے ہو سکے کہ پاکستان میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو سرے سے انتخاب اور ووٹ کے جھنجھٹ میں یقین ہی نہیں رکھتے نیز جنھوں نے 1985ء اور 2002ء کے ریفرنڈم میں سرگرمی سے حصہ لے کر مثالی جمہوریت کی خدمت کی۔ بیلٹ پیپر میں ترمیم اور انتخابی عملے کی طرف سے امیدواروں سے مضحکہ خیز سوالات پوچھنے کے ڈانڈے ایران کی مجلس بزرگان سے جا ملتے ہیں جو انتخابات سے قبل ہزاروں امیدواروں کو نظریاتی بنیادوں پر رد کردیتی ہے۔ اس طریقہ کار سے سیاسی مخالفین کو میدان سے باہر کرنے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ گویا دائیں بازو کی فسطائیت مسلط کی جا رہی ہے۔ فسطائیت کے بارے میں یہ سمجھ لیجئے کہ یہ بنیادی طور پر رجعت پسند سیاسی قوتوں کا فوج کے ساتھ گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔
این اے 60 چکوال سے مسلم لیگ نواز کے امیدوار قومی اسمبلی ایاز امیر کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دئیے گئے۔ الزام یہ کہ انہوں نے اپنے کالموں میں نظریہ پاکستان کی مخالفت کی۔ ایاز امیر ہمارے قابل قدر شہری اور صف اول کے صحافی ہیں۔ ذہن براق اور رکھ رکھاؤ مہذب۔ حریت فکر ان کی شخصیت کا بنیادی حوالہ ہے۔ خدا کے واسطے اس کو نہ روکو۔ یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے۔
نظریہ پاکستان ایک نیم مقدس اصطلاح ہے جس کی درست تعریف کا دعویٰ کوئی نہیں کرسکتا۔ پاکستان کا آئین اس ضمن میں خاموش ہے۔ تین حوالے آپ کی خدمت میں پیش کردیتا ہوں۔ نتیجہ آپ خود نکال لیں۔ 1978ء کے موسم سرما میں حیدر آباد ٹریبونل کی بساط لپیٹی جا رہی تھی۔ ایک تصویر نہاں خانہٴ دل میں محفوظ ہے۔ ولی خان صاحب اور بیگم نسیم ولی ساتھ ساتھ رکھی کرسیوں پر تشریف فرما ہیں اور عزیزاللہ شیخ جھک کر ولی خان کے کان میں کچھ کہہ رہے ہیں۔ اس سماعت کے دوران ولی خان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے نظریہ پاکستان کی مخالفت کی ہے۔ ولی خان قصہ خوانی کے چشم دید گواہ تھے۔ سیاست ان کے ناخنوں میں بھری تھی۔ بڑے رسان سے کہا ۔ نظریہ پاکستان کی تعریف بتا دیجئے ۔ جسٹس ریاض نے کہا آپ کو ترجمہ بتا دیتے ہیں۔ کہا، نہیں میں انگریزی سمجھ لیتا ہوں۔ مجھے تعریف بتائیے۔ تعریف نہیں بتائی گئی کیونکہ تعریف موجود نہیں تھی اور نظریہ پاکستان کی تعریف موجود نہیں ہے۔ جسٹس منیر احمد کی کتاب ’جناح سے ضیا تک‘ہماری تاریخ کے مبادی مطالعات میں شامل ہے۔ 1962ء میں خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے آئین کی آمد آمد تھی۔جسٹس منیر عوام کی آرأ معلوم کرنے پر مامور تھے۔ بیان کرتے ہیں کہ لائل پور سے جماعت اسلامی کے ایک کارکن عبد الباری نے کہا کہ آئین کو نظریہٴ پاکستان کی ضمانت دینی چاہئے۔ سوال ہوا ، نظریہٴ پاکستان یعنی چہ؟فرمایا ’قرآن نظریہٴ پاکستان ہے‘۔ جسٹس منیر لکھتے ہیں پاکستان میں قرآن کا نام آ جائے تو کسی کو بولنے کا یارا نہیں رہتا اور اب تیسرا حوالہ ، میجر جنرل (ریٹائرڈ ) نوابزادہ شیر علی خان، یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات۔ ان کی خود نوشت پڑھ لیجئے ۔ نظریہ پاکستان کمیٹی کا ایک رکن بریگیڈیئر شیر علی خان تھا اور دوسرا رکن کرنل یحییٰ خان اور اس ٹاسک فورس کا مدار مہام تھا جنرل فرینک میسروی۔ نیکو کار سیاست کے علمبرداروں نے تو نظریہ پاکستان کی اصطلاح کو مفید مطلب پا کر بعد میں اپنایا تھا، اس غنچہ نا شگفتہ کے ابتدائی گل چیں کچھ اور ہی لوگ تھے۔
نظریہ پاکستان ایک سیاسی نقطہٴ نظر ہے جسے قیام پاکستان سے پہلے کی سیاسی کشمکش کے تناظر میں بیان کیا جاتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد نظریہ پاکستان کی مخالفت کے کیا معنی ہیں۔ ہم سب پاکستان کے شہری ہیں اور پاکستان کے تحفظ اور ترقی کے خواہاں ہیں ۔ سیاسی رائے اور مذہبی عقیدے میں فرق کرنا چاہیے۔ جمہوریت سیاسی اختلافات کو مکالمے کے ذریعے سلجھانے کا نام ہے، فتوؤں کی مدد سے مخالفین کا قافیہ تنگ کرنا جمہوریت نہیں۔ مرحوم جسٹس رستم کیانی نے ایک تقریر میں گالف کی چھڑیوں کا ایک قصہ بیان کیا تھا۔ پارسائی اور دیانت داری کی آڑ میں جمہوریت کی قربانی مانگنے والوں کا طریقہ واردات سمجھنے کے لئے گالف کی چھڑیوں کی بازآفرینی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا۔ برما کے محاذ پر ایک گاؤں پر بم گرا جس سے ایک مکان میں آگ لگ گئی۔ گاؤں کے مکین مدد کیلئے پہنچے۔ کسی نے اہل خانہ کو آگ سے نکالنے کی سعی کی، کوئی پانی کی بالٹی لئے آگ بجھا رہا تھا، کوئی گھر کا قیمتی اثاثہ آگ کے شعلوں سے نکال رہا تھا۔ ایک صاحب نے دیکھا کہ گاؤں کا ایک نوجوان جلتے ہوئے مکان سے گالف کی چھڑیوں کا تھیلا اٹھا کر عقبی دروازے سے فرار ہو رہا ہے۔ اُنھوں نے اُسے بازو سے پکڑ لیا اور شرمندہ کرنے کیلئے کہا کہ ”تمہیں شرم آنی چاہئے کہ اس مصیبت کے وقت میں جب اہل خانہ کی جان پر بنی ہے تم ایسی معمولی چیز چرا کر لے جا رہے ہو“۔ نوجوان نے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے کہا ”خدا کیلئے خاموش رہئے۔ گالف کی ان چھڑیوں کو معمولی نہ سمجھئے۔ میں نے ایک عرصے سے اِن چھڑیوں پر آنکھ رکھی ہوئی تھی۔ آج بڑی مشکل سے یہ سنہری موقع ہاتھ آیا ہے“۔
تو عزیزان من، مسئلہ محض دعائے قنوت زبانی سنانے کا نہیں اور نہ اردشیر کاوٴس جی کی تعریف کرنا جرم ہے۔ مالی بدعنوانی بھی نکتہٴ نزاع نہیں۔ ہمارے کرم فرماؤں کی نظر تو ایک مدت سے جمہوریت کی چھڑیوں پر ہے۔
تازہ ترین