• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کی گفتگو کا آغاز میں اٹلی کے شہر پیسا کے اس ٹاور کے ذکر سے کروں گا جو ایک جانب ذرا سا جھکا ہوا ہے اور سیاحت کا ایک اہم مرکز ہے لیکن پہلی بات یہ کہ میں تقریباً دو ہفتوں کے لئے ملک سے باہر ہوں اور پہلے ہفتے اپنے قریبی خاندان کے ساتھ ہوں ہمارا پڑاؤ شمالی اٹلی کے شہر میلان کے قریب ہے اور وسطی یورپ کے کئی شہر اور ملک ہماری دسترس میں ہیں۔ سب سے پہلے ہم پیسا گئے اسی جھکے ہوئے ٹاور کو دیکھنے اور جب اس کی کہانی انٹرنیٹ پر پڑھی تو میں چونک اٹھا۔ سنئے … اس ٹاور کی تعمیر 14 اگست کو شروع ہوئی۔ یہ تاریخ کتنی مانوس ہے ہمارے لئے اور سال تھا 1173ء اس کا عدد تین بنتا ہے۔ 1947ء کی طرح۔ تو یہ موازنہ یوں تو کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن کیونکہ پاکستان تقریباً ہر لمحے ہمارے ساتھ رہتا ہے اس لئے کچھ دیر کے لئے میں سوچتا رہا کہ کیا یہ بھی کوئی استعارہ ہے اور اس خیال نے تقویت بھی دی ہے کہ پیسا کا ٹاور اپنے ڈرا دینے والے جھکاؤ کے باوجود صدیوں سے کھڑا ہے اس کی تاریخ بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ ہاں اس کی تعمیر میں خرابی کی صورت یوں مضمر تھی کہ تعمیر ہی کے دنوں میں یہ جھکنے لگا۔ ایک وجہ شاید یہ تھی کہ بنیاد مضبوط نہیں تھی اور جس زمین پر اس کی تعمیر کی جا رہی تھی وہ کچھ نرم تھی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ 184 فٹ بلند ٹاور گرا نہیں اور ابھی تک قائم ہے اور دنیا والے اسے ایک عجوبہ سمجھتے ہیں اس سلسلے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ بیسویں صدی میں اور موجودہ صدی کے ابتدائی سالوں میں زیرزمین تعمیراتی کارروائی کے ذریعے اس کے جھکاؤ کو روکا گیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ بنا بھی کئی مرحلوں میں تھا اور یہ کام تین سو سالوں سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔
پیسا کے ٹاور کی بات تو یونہی بیچ میں آگئی۔ میری کہانی تو یہ ہے کہ کیسے ہم نے اپنی زندگیوں میں سے یہ چند روز چرائے ہیں کہ ہم یوں ساتھ ہیں اور جیسے ایک خواب جی رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں کہ بوڑھے ہوتے ہوئے والدین اکیلے رہ گئے ہیں اور ان کی اولاد نے سمندروں کی دوسری جانب اپنے گھر بسا لئے ہیں آواز اور تصویر کے رابطے تو بہت آسان ہیں لیکن پورے گھر کا ایک جگہ جمع ہونا بہت مشکل ہو جاتا ہے اب تو بچوں کو کراچی بلانے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ جب بھی ملتے ہیں تو خوشی کے لمحوں میں یہ خیال تنگ کرتا رہتا ہے کہ خدا جانے اب پھر کب ملیں گے۔ میری بڑی بیٹی امریکہ کے مغربی ساحل پر آباد ہے اور چھوٹی بیٹی کا گھر اٹلی کے شمال میں ہے اور ہم دونوں میاں بیوی، پاکستان کے طوفانوں میں لنگرانداز ہیں بچوں کی ایک ہفتے کی چھٹیاں تھیں اور یہ موقع تھا کہ ہم اٹلی میں جمع ہو جائیں اور گھومیں، پھریں اور یادوں کی پوٹلی باندھ کر اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹ جائیں۔ اس مختصر وقفے میں تاثرات اور تجربات کی جس یلغار کا سامنا ہے اس کی تفصیل ممکن نہیں۔ ذاتی اور جذباتی معاملات اپنی جگہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور ان یورپی معاشروں کے حالات کیسے ہیں یہ جاننا اور سمجھنا بھی ضروری ہے ظاہر ہے کہ اس عمل میں بار بار پاکستان ایک حوالہ بن کر سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ گویا ہم دنیا کو پاکستان کی کھڑکی سے دیکھتے ہیں کیونکہ میں ایک صحافی ہوں اس لئے میری مجبوری ہے کہ میں منظر کے ساتھ ساتھ پس منظر میں بھی الجھا رہتا ہوں۔ اسے میں اپنی خوش قسمتی سمجھتاہوں کہ میں نے بہت دنیا دیکھی ہے صحافتی دورے کئے ہیں اس کے باوجود نوجوانی کی وہ حسرتیں اب بھی باقی ہیں جن کی پرورش ناولوں اور ہالی وڈ کی فلموں نے کی تھی۔ یہ موقع تو صرف ایک دو بار ہی ملا کہ عزیز ترین ہستیاں ساتھ ہوں ایک ایسی کار یا بڑی گاڑی ہو جس میں سب بیٹھ سکیں اور خرچ میں کفایت شعاری کی بندش کے بغیر جہاں جی چاہے چلے جائیں صرف وقت کی کمی ہے ورنہ یورپ کے کئی ملک اور تاریخی شہر تین سے پانچ چھ گھنٹوں کی مسافت پر ہمیں آواز دے رہے ہیں مثلاً جب ہم ایک رات مانٹی کارلو میں رکے تو میرے داماد کی کریڈٹ کارڈ کمپنی کا فون امریکہ سے آیا کہ دو گھنٹوں میں تین ملکوں میں آپ کا کارڈ استعمال ہوا ہے کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہے؟ بالکل نہیں۔ اٹلی سے ہم فرانس میں داخل ہوئے اور کچھ دیر بعد ہم مونٹی کارلو یعنی موناکو میں تھے جو ایک الگ ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔
ارادہ بالکل یہ نہیں ہے کہ سفر نامہ لکھا جائے۔ جب منظر اتنی تیزی سے بدلیں تو ان کا شمار بھی مشکل ہے پھر بھی یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ کیسے یورپ کے بیشتر ملکوں کے درمیان اب سرحدیں باقی نہیں رہی ہیں۔ ہم اٹلی سے فرانس میں داخل ہوگئے اور اگر کنارے پر لگے ایک چھوٹے سے بورڈ پر نظر نہ پڑتی تو پتہ بھی نہ چلتا کہ ہم ایک دوسرے ملک میں تھے۔ کسی نے اس طرح بھی نہیں روکا کہ جیسے اسلام آباد میں جگہ جگہ روکا جاتا ہے۔ ایک پاکستانی تو غیرشعوری طور پر سہما سہما رہتا ہے کہ اب کسی نے روکا، کسی نے ٹوکا، یہاں یورپ کے قلب میں خون کی گردش کی طرح مسلسل آمدورفت جاری ہے۔ یہ ضروری ممکن ہے کہ خفیہ کیمرے سب کچھ دیکھ رہے ہوں اورکمپیوٹر میں قید معلومات کا کوئی حساب رکھ رہا ہو مگر آزادی اور حفاظت کا جو احساس یہاں ہے وہ اپنے ملک اور اپنے شہر میں بالکل نہیں۔ ”امن کی آشا“ کے باب میں ہم جرمنی اور فرانس کے تعلقات کا ذکر کرتے رہے ہیں کہ کیسے قدیم دشمنوں نے ایک ہولناک جنگ کے بعد دوستی کی منطق کو تسلیم کیا۔ یورپین یونین کے تمام ملکوں نے یہ سبق سیکھ لیا ہے اور ہم جنوبی ایشیا کے آسیب کے پالے ہوئے بدنصیب لوگ، اپنی نفرتوں اور تعصبات کے اسیر ہیں۔ سیدھی سی بات ہے اور اسے قبول کرنے کی اکثر ہم میں ہمت نہیں ہوتی کہ ہم دراصل عہد حاضر کی فکری اور تہذیبی روایات سے گریزاں ہیں۔ فرق نہ صرف صاف ظاہر ہے بلکہ ”بریکنگ نیوز“ کی مانند آنکھوں کو خیرہ کئے دے رہا ہے۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ جس دن ہم صبر سے لائن بنا کر اپنی باری کا انتظار کرنا سیکھ لیں گے ہماری دنیا بدل جائے گی لیکن کیا اس لائن میں وہ افراد بھی ہونگے جو چور دروازے سے آتے اور جاتے ہیں؟
چلتے چلتے میں اس موازنے کی اس ڈرامائی تشکیل کا ذکر بھی کردوں کہ جو یورپ کے ہمارے اس سفر کی پیش لفظ بھی کہی جا سکتی ہے ہم نے میلان کے لئے اسلام آباد سے جمعہ کے دن پی آئی اے کی پرواز لی، اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر جو مناظر ہم نے دیکھے وہ اجتماعی دہشت اور بدنظمی اور افراتفری کی ایک ایسی تصویر تھے کہ میں یہ سوچتا ہی رہ گیا کہ یہ سب ممکن کیوں ہے؟ یہ میں کیا ہو گیا ہے؟ ایک ردعمل مجھے یاد ہے۔ ایک شخص جنونی انداز میں اچانک چیخ اٹھا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔ میری نظر میں وہ ایک پورے معاشرے کی بے زبانی کی آواز تھی اور مجھے لگتا ہے کہ یورپ کے اس مختصر قیام میں یہ آواز مسلسل میرے تعاقب میں ہے۔
تازہ ترین