• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپین پارلیمنٹ کے اراکین کا بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر اٹھانے کا مطالبہ

مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال کے تناظر میں یورپین پارلیمنٹ کے 15 ممبران نے یورپین قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر اٹھائے۔ یہ مطالبہ یورپین پارلیمنٹ کے ممبران نے یورپین کمیشن کی صدر ارسلا واندرلین اور یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل کے نام تحریر کردہ ایک خط میں کیا۔

یورپین پارلیمنٹ کے نائب صدر فابیو ماسولو کیستالدو کے ہمراہ بیتینا وولاتھ ایم ای پی، ہیلمٹ شولز ایم ای پی، ماریا ایرینا ایم ای پی، دانیالا روندینیلی ایم ای پی، ہاوئیر نارٹ ایم ای پی، کارلوس پوئیگدیمو ایم ای پی، انتونی کومن اولیوئیر ایم ای پی، کلارا پونساتی ایم ای پی، الوینا الامیتسا ایم ای پی، ارنسٹ ارتاسن ایم ای پی، کلاز بخنر ایم ای پی اور مائیک ولاس ایم ای پی و دیگر نے اپنے خط میں یورپین قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر آج کی دنیا میں سب سے طویل عرصے سے جاری ایسا تنازعہ ہے جو اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ اور شاید فوج کی موجودگی کے تناسب سے خطرناک  ترین ہے جو جنگی فلیش پوائنٹ ہو سکتا ہے۔

ممبران پارلیمنٹ نے خط میں کہا کہ اس طویل جاری تنازع کے سبب کشمیری عوام ناقابل برداشت دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں اور جہاں وہ گذشتہ سات عشروں سےاپنی آزادی اور بنیادی حقوق سے محروم چلے آرہے ہیں۔ اس بات کا تذکرہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے جاری کردہ 2018 اور 2019 کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔ بھارت کی جانب سے اس علاقے پر کنٹرول کی کوششوں کے نتیجے میں ہزاروں عام شہری ہلاک اور بے شمار اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ان بڑھتے ہوئے اعداد و شمار کا ذکر جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والی تنظیم جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی نے بھی کیا ہے۔ ممبران پارلیمنٹ نے اپنے خط میں مزید تحریر کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی کئی نسلیں سوائے جبر کے کچھ اور نہیں دیکھ پارہیں۔

ممبران پارلیمنٹ نے خط میں بھارتی  وزیر اعظم مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسی دوران ان کی قیادت میں بی جے پی نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنے زیر انتظام کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کرتے ہوئے وہاں مزید فوج اتاری، کرفیو لگایا، ذرائع مواصلات کو مکمل بند کیا اور سیاسی قیادت کو گرفتار کرلیا اور جہاں گذشتہ 9 ماہ سے غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہے۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بھارت جو پہلے ایک جمہوری اور سب کو ساتھ لیکر چلنے والی ریاست تھی وہاں اب ہندو قوم پرستی معاشرے اور سیاست پر غلبہ حاصل کر رہی ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کا معاملہ سیاسی طور پر نہیں بلکہ اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر اکیلا حل کرنا چاہتا ہے۔

ان خط لکھنے والے ممبران پارلیمنٹ نے یورپین کمیشن کی صدر ارسلا واندر لین اور یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل سے مزید مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان اور کشمیری عوام سمیت اس تنازع کے بڑے فریق بھارت کو اس مسئلے پر مذاکرات کیلئے آمادہ کریں اور ہماری قیادت کے طور پر بھارت کو ہماری اس تشویش سے آگاہ کریں کہ وہ کشمیری عوام اور بھارتی مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے باز رہے۔

یاد رہے کہ دو ہفتے قبل یورپین پارلیمنٹ کے اندرونی تحقیقی مرکز نے ممبران پارلیمنٹ اور ان کے اسٹاف کی مدد کیلئے ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف پارلیمنٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کی سربراہ نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھا بلکہ اس مرتبہ یورپین پارلیمنٹ کے دیگر 15 ارکان نے یورپین قیادت کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے ان سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بھارت سے بات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے لکھا جانے والا موجودہ خط اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ بھارت کا اندازہ یہ تھا کہ کشمیری عوام اور پاکستان کی طاقت وہ کشمیری یا پاکستانی نژاد ممبران یورپین پارلیمنٹ ہیں جو برطانیہ سے منتخب ہوکر آتے ہیں ۔ لیکن نئی آنے والی یورپین پارلیمنٹ میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ جس کیلئے پاکستان کے سفارتی ذمہ داران اور وہ شخصیات خراج تحسین کی مستحق ہیں جو ادارہ جاتی سطح پر کشمیری عوام کا مقدمہ تحقیقی دستاویزات کی صورت میں پیش کرتے رہتے ہیں۔

تازہ ترین