• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس فائز عیسیٰ، کس قانون کے تحت جج کو اہل خانہ کی جائیداد ظاہر کرنا ضروری ہے، سپریم کورٹ

’کس قانون کے تحت جج کو اہل خانہ کی جائیداد ظاہر کرنا ضروری ہے‘


راولپنڈی(مانیٹرنگ ڈیسک )سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی ٰکے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرنیوالے 10 رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا ہے کہ ایسا قانون دکھا دیں جس کے تحت جج کو اپنی اور خاندان کے افراد کی جائیداد ظاہر کرنا ضروری ہے؟ سیکشن پانچ کے تحت جج کے لئے ایسی پابندی نہیں کہ وہ غیر ملکی جائیداد ظاہر کرے۔

دوران سماعت وفاق کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ان جائیدادوں کی خریداری سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسی بینک ٹرانزیکشن دکھا دیں۔ ان کا صرف ایک لائن کا جواب ہے کہ منی لانڈرنگ سنگین جرم ہے ۔

سپریم کورٹ کے 10 رکنی بنچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اُٹھایا کہ شکایت کنندہ وحید ڈوگر کی درخواست پر مذکورہ جج کے خلاف تحقیقات کی اجازت کس نے دی۔

اثاثوں کی ریکوری کرنیوالے ادارے یعنی اے آر یو نے اس شکایت پر فوری انکوائری کا آغاز کیسے کر دیا۔ عدالت کو یہ بھی بتایا جائے کہ اے آر یو نے اب تک کتنی عوامی شکایات پر عوامی عہدہ رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ 

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ان درخواستوں کی سماعت کرنے والے بنچ میں شامل جسٹس سجاد علی شاہ نے بھی سوال اٹھایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جائیداد کی تفصیلات انٹرنیٹ پر کیسے آ گئیں جبکہ مذکورہ جج کے خلاف شکایت کنندہ وحید ڈوگر کو تو قاضی فائز عیسی کے نام کے اسپیلنگ بھی نہیں آتے۔ 

عدالت نے ان درخواستوں میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ کیا شکایت کنندہ کی درخواست پر کارروائی کرنے سے پہلے ان کی ساکھ کا جائزہ لیا گیا تھا۔ وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ شکایت کو دیکھا جاتا ہے جبکہ شکایت کنندہ کی ساکھ اہمیت کی حامل نہیں ہوتی۔

وحید ڈوگر نے 10 اپریل 2019 کو اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو شکایت بھیجی اور 8 مئی 2019 کو لندن میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی جائیداد کے بارے میں اے آر یو کو خط لکھا تھا۔

تازہ ترین