• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
11 مئی کے عام انتخابات کے نتائج ایک ہی نقطے کے گرد گھومتے ہیں وہ یہ ہے کہ عمران خان کی ٹیم کی کارکردگی کیسی رہے گی ۔یہی ایک فیکٹر اس بات کا بھی تعین کرے گا کہ مسلم لیگ نواز جو بہت سے عوامی سروے کے مطابق مقبول ترین جماعت ہے کتنی سیٹیں حاصل کرسکے گی اور ساتھ ساتھ یہ بھی طے ہوگا کہ پیپلزپارٹی جو اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے کو آئندہ انتخابات میں کیا ملے گا۔ لہذا نئے الیکشن کے نتائج کا سارا دارومدار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ووٹ پر منحصر ہے۔ صرف عمران خان ہی جانتے ہیں کہ وہ پرویزمشرف کے سابقہ ساتھیوں کے جھرمٹ میں انتخابی دنگل جیت کر کیا تبدیلی لائیں گے مگر سب سے بڑی تبدیلی جو وہ لاچکے ہیں اور جس کا شاید انہیں احساس بھی نہیں وہ یہ ہے کہ ہر کوئی آئندہ انتخابات کا تجزیہ اس لحاظ سے کر رہا ہے کہ ان کی جماعت کا کردار انتہائی اہم ہے۔ خصوصاً پڑھا لکھا طبقہ کپتان کو ٹیسٹ کرنا چاہتا ہے۔ بہت سے مڈل رینک کے فوجی افسران بھی اس بار عمران خان کو ووٹ دینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ان میں امید کی ایک کرن دیکھ رہے ہیں۔ اگر واقعی وہ شہری علاقوں میں جہاں پڑھا لکھا طبقہ زیادہ تعداد میں رہتا ہے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یقیناً نون لیگ کو نقصان ہوگا اور پیپلزپارٹی بھی اس سے محفوظ نہیں رہے گی۔ اس وقت تک پی ٹی آئی نے دونوں بڑی جماعتوں کو تقریباً برابر کا نقصان ہی پہنچایا ہے۔ شروع شروع میں جب عمران خان فیکٹر ابھرا تو پیپلزپارٹی اپنے روایتی بچگانہ انداز میں بہت خوش ہوئی کہ اب نواز شریف کو جان کے لالے پڑ گئے ہیں مگر کچھ عرصے بعد ہی اسے احساس ہو گیا کہ کپتان تو انہیں بھی نقصان پہنچا رہا ہے لہذا پھر اس نے اپنی توپوں کے رخ ان کی طرف کر دیئے۔ تاہم نون لیگ تو پہلے دن سے ہی پی ٹی آئی پر حملے کر رہی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کی ری لانچ میں آئی ایس آئی ملوث ہے۔ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی اسی سلسلے کی کڑی سمجھتی ہے اور پرویزمشرف کی واپسی بھی اسی کوشش کا حصہ قرار دیتی ہے۔
عمران خان ابھی تک عوامی مقبولیت میں اس پوزیشن میں نہیں آئے کہ ان کے کھمبے بھی جیت جائیں۔ ہوسکتا ہے ان کے کچھ امیدوار اچھی تعداد میں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں مگر وہ اس قابل نہیں ہوں گے کہ اپنے حلقے میں نمبر ون پر آجائیں۔ پی ٹی آئی کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے حلقوں میں اس کے پاس ایسے امیدوار نہیں جن کا ذاتی ووٹ بنک ہو ۔ ہمارے ہاں امیدوارکا ذاتی اور پارٹی کا ووٹ مل کر ہی کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ اگر امیدوار کمزور ہو اور اچھی شہرت کا حامل نہ ہو تو صرف پارٹی کے ووٹ سے کامیابی ممکن نہیں لگتی۔ صرف پی ٹی آئی کا ووٹ شاید ہی کسی امیدوار کیلئے کامیابی کا باعث بن سکے۔ چاہے شاہ محمود قریشی کو لے لیں یا عمران خان ، جاوید ہاشمی ، علیم خان، خورشید قصوری یا جہانگیر ترین ان سب کے اپنے اپنے حلقوں میں ذاتی ووٹ بنک ہے جب یہ پارٹی کے ووٹ کے ساتھ ملیں گے تو شاید کامیابی ممکن ہو جائے۔ بے شمار حلقوں میں عمران خان کے امیدوار غیر معروف ہیں جن کا سرے سے سیاست میں کچھ نام نہیں۔ تاہم اس کے باوجود پی ٹی آئی میں ٹکٹوں کی تقسیم پر باقی سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ جھگڑے ہوئے ہیں جو زور و شور سے جاری ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا پتھر تو نیازی برادران (جو عمران خان کے انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں) نے مارا۔ مگر ان حضرات نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ اگر عمران میانوالی میں مرحوم ڈاکٹر شیر افگن کے بیٹے کے ساتھ اتحاد نہ کرتے تو شاید ان کی اپنی جیت بھی خطرے میں پڑ جاتی۔ لہذا انہوں نے مناسب سمجھا کہ انعام اللہ نیازی (جو عمران خان کے بہنوئی کے سگے بھائی ہیں) کو NA-72 میانوالی سے ٹکٹ نہ دیں اور ڈاکٹر شیر افگن کے بیٹے کی حمایت کریں۔ یہ صرف عمران خان اور نیازی برادران ہی جانتے ہیں کہ ان کے تعلقات کس طرح نارمل ہوں گے۔ تاہم عمران خان نے ثابت کیا کہ سیاست میں جیت ہی اہم ہوتی ہے رشتہ داریاں نہیں۔ باقی بہت سے حلقوں میں اسی طرح کے لڑائی جھگڑے جاری ہیں جس کی ایک وجہ عمران خان کی ناتجربہ کاری ہے۔ انہیں کبھی بھی اپنی سیاسی زندگی میں ایسے بڑے آپریشن سے واسطہ نہیں پڑا یہ تو اکتوبر 2011ء کا مینار پاکستان لاہور کا جلسہ تھا جو ان کی پارٹی کو ایک اہم سیاسی قوت کے طورپر سامنے لایا۔ اس سے قبل تو کسی نے بھی کبھی پی ٹی آئی کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
عوامی سطح پر پیپلزپارٹی چاہے کچھ بھی کہے وہ دل سے تو آئندہ انتخابات ہار چکی ہے وجہ اس کے اپنے اعمال ہیں اور صدر آصف علی زرداری کی ”سیاسی دانشمندی“ جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ اس کی مایوسی کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکی کہ اس کی انتخابی مہم کس نے چلانی ہے۔ کم عمری ،اس زبان جو عوام سمجھتے ہیں پر عبور نہ ہونے کی وجہ اور سیکورٹی کے خطرات کے پیش نظر بلاول تو انتخابی معرکہ میں لیڈر کا رول ادا نہیں کرسکیں گے۔ یہ توقع کرنا کہ منظور وٹو پنجاب میں کوئی معجزہ دکھا سکیں احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ وہ تو بیچارے اپنی سیٹ جیت جائیں تو بڑی بات ہوگی۔ ان بدترین حالات میں بھی صدر زرداری کی سر توڑ کوشش ہے کہ وہ چاہے قومی سطح پر اور پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں الیکشن ہار جائیں کسی نہ کسی طرح سندھ میں تو جیت جائیں اور متحدہ قومی موومنٹ سے مل کر اگلی صوبائی حکومت بنا لیں تو ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ یہ تو رہی پیپلزپارٹی کی اسکیم۔نون لیگ تو تقریباً انتخابات جیت کر بیٹھی ہے اور عام تاثر بھی یہی ہے کہ اب ”باری“ اس کی ہے۔ تاہم عمران خان اس کیلئے ایک بہت بڑی رکاوٹ بن کر ابھرے ہیں۔ نون لیگ ان سے انتہائی خوفزدہ ہے مگر نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کے پاس الیکشن لڑنے اور سیاسی جوڑ توڑ کا ایک وسیع تجربہ ہے جس کا وہ بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ نوازشریف ایک بڑی جاندار انتخابی مہم چلانے میں ماہر ہیں۔ پھر انہیں شہبازشریف جیسے تیز طرار اور مستعد بھائی کی مدد بھی حاصل ہے جن کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آئندہ چند دنوں میں پی ٹی آئی نون لیگ کے حملوں کا نشانہ زیادہ اور پیپلزپارٹی کم بنے ہوگی کیونکہ عمران خان سے خطرہ زیادہ ہے۔ ایسے حلقے جہاں نون لیگ کے امیدوار کم اکثریت سے جیتتے رہے ہیں وہاں پی ٹی آئی اسے زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے کیونکہ نوازشریف کا کافی ووٹ عمران خان حاصل کرسکتے ہیں۔ لہذا ان الیکشن میں پی ٹی آئی کا ووٹ فیصلہ کن ہوگا جس کی وجہ سے یہ بات سامنے آئے گی کہ آیا کوئی ایک سیاسی جماعت قومی اسمبلی میں واضح سادہ اکثریت حاصل کر لے گی یاکہ Hang Parliament وجود میں آئے گی۔ تاہم اگر عمران خان کی مقبولیت کی کوئی بڑی لہر چل پڑی تو سارے تخمینے اور اندازے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
تازہ ترین