• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بورے والا ہائی اسکول میں ہمارے ایک بڑے قابلِ احترام استاد بشیر صاحب ہمیں میٹرک کی سائنس پڑھایا کرتے تھے، وہ جب کسی سے زچ ہوتے تو کہا کرتے ”اوئے توں بندا ایں کہ پٹواری“ یعنی تم انسان ہو یا پٹواری۔ میٹرک میں ہم لوگ بڑے معصوم ہوتے تھے اور ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ انسان اور پٹواری میں کیا فرق ہوتا ہے۔ خیر آج اٹھارہ سال بعد میں دعوی کر سکتا ہوں کہ کم از کم مجھے انسان اور پٹواری کا فرق اچھی طرح سمجھ میں آ گیا ہے۔ چند ایک واقعات بیان کرتا ہوں ،ہو سکتا ہے کہ آپ کا ذہن بھی صاف ہو جائے۔ (ویسے مجھے یقین ہے کہ آپ کا ذہن پہلے ہی بہت صاف ہو گا)
میرے ایک بیچ میٹ اور دوست چند ماہ پہلے خیبر پختونخوا کے ایک شورش زدہ ضلع میں ڈی پی او کی حیثیت سے تعینات تھے۔اسلام آباد آتے رہتے تھے ، کیونکہ ایمانداری کی ”بیماری“ میں مبتلا ہیں اس لئے ذاتی گاڑی نہیں خرید سکے۔” لیکن سرکاری گاڑی کے ذاتی استعمال کی حد تک میں کرپٹ ہوں!“ وہ تسلیم کرتے ہیں۔ شورش زدہ علاقوں میں ضلع کاکنٹرول آرمی سنبھال لیتی ہے اس لئے جب میٹنگ ہوتی ہے تو بریگیڈئیر صاحب میٹنگ کی سربراہی کرتے ہیں۔ایک دفعہ میٹنگ جاری تھی اور کچھ امور ابھی بحث طلب تھے کہ بریگیڈئیر صاحب نے جلدی جلدی کا شور مچا دیا۔انہیں دراصل اسلام آباد جانا تھا اور وہ کہنے لگے کہ اسلام آباد جانے میں آٹھ گھنٹے لگیں گے اس لئے میٹنگ جلدی ختم کریں۔”آٹھ گھنٹے؟؟“ حاضرین میں بیٹھے ہوئے اٹھارہ گریڈ کے نوجوان افسر چلا اٹھے ۔ ”سر بڑے آرام سے بھی جائیں تو اسلام آباد جانے میں چھ گھنٹے لگتے ہیں“، وہ تکرار کرنے لگے ۔ انہیں بعد میں احساس ہوا کہ بریگیڈئیر صاحب کیونکہ سرکاری گاڑی پر اسلام آباد نہیں جا سکتے اس لئے انہیں پہلے ایک لوکل بس پر ڈی آئی خان جانا پڑتا ہے اور پھر وہاں سے ایک اور بس پر بیٹھ کر اسلام آباد۔ اگرچہ ان سول افسران کوفیلڈ میں آئے ہوئے ابھی تین چار سال ہی ہوئے ہیں لیکن انہیں اگر انگلستان بھی جانا ہو اور ان کا بس چلے تو وہاں بھی سرکاری گاڑی اور ڈرائیور لے جائیں بمعہ سرکاری تیل۔یقین نہیں آ رہا !! بڑے بھولے بادشاہ ہیں آپ۔ چلیں ایک تازہ واقعہ سنا دیتا ہوں آج کل الیکشن کی آمد آمد ہے۔ چند روز پہلے پاکستان بھر سے سول افسران کو اسلام آباد ٹریننگ کیلئے بلایا گیا تھا ۔ تقریباً تمام کے تمام سرکاری گاڑیوں پر تشریف لائے حالانکہ ٹریول الاؤنس بھی سب نے یقینا ہضم کیاہوگا۔ پٹواری ازم کی سب سے شاندار مثال بہر حال کوئٹہ سے آنے والے درمیانے اور اعلیٰ عہدوں کے پٹواریوں ،اوہ !! معذرت چاہتا ہوں ، میر ا مطلب ہے سیکریٹریوں نے قائم کی ۔ خود تو کوئٹہ سے جہاز پر تشریف لا کر حکومتِ پاکستان سے ٹریننگ لیکر احسان کیا لیکن ان کی اسلام آباد میں ضرورتوں کے پیشِ نظر سرکاری گاڑیاں کوئٹہ سے ایک دو روز پہلے روانہ ہو کر اسلام آباد پہنچیں اور چند روزکی ٹریننگ کے بعد وہ خود جہاز پر روانہ ہو گئے اور گاڑیاں پھر اسی طرح اسلام آباد سے کوئٹہ کو روانہ ہوئیں۔آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ کوئٹہ میں اس وقت کتنی نازک صورتحال ہے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ کوئٹہ کی حکومت کے پاس وسائل کی کتنی کمی ہے۔لیکن ان حالات میں بھی ہمارے سول افسروں کا پٹواری کلچر اپنے جوبن پر ہے۔
ویسے تو اوپر والی سطح پرآرمی میں بھی جس کا بس چلتا ہے بہت بڑا پٹواری ہے لیکن وہاں درمیانی اور نچلی سطح پر پھر بھی کوئی نظام کا م کر رہا ہے۔ سول سروس کی ٹریننگ کے دوران آرمی کے ساتھ بھی تربیت دی جاتی ہے ، سو ہمیں بھی کوئی پندرہ دن کیلئے ایک یونٹ کے ساتھ لگا دیا گیا۔ وہاں مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ جاتے ہی میس کیلئے ہم سے سیکورٹی طلب کی گئی اور جتنے دن ہم آرمی کے ساتھ رہے ، اپنے کھانے پینے کا بل خود ادا کرتے رہے، اپنی جیب سے نہیں بلکہ ہمیں اس مد میں مناسب ڈیلی الاؤنس دیا گیا تھا۔ اسی آرمی ٹریننگ کے دوران ایک ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آ یا ۔ ٹریننگ کے اختتام پر ہمیں چند دنوں کیلئے کور ہیڈ کوارٹر کراچی کی کسی یونٹ میں بھی رکھا گیا ۔ ٹریننگ ہی کے سلسلے میں ہمیں یونٹ کے دفتر میں لے جایا گیا ، جہاں ہم دو تین سول افسروں نے ایک دفعہ کینٹین سے ناشتہ بھی کیا اور اسکے پیسے وہیں ادا کردئیے۔ آخری روز جب ہمیں آرمی کی گاڑیوں میں اےئر پورٹ روانہ کیا گیا تو راستے میں ڈرائیور کو حکم موصول ہوا کہ ہمیں واپس یونٹ کے دفتر لا یا جائے ، ہمیں حیرت ہوئی تو ڈرائیور نے بتایا کہ دوروز پہلے آپ نے کینٹین سے جو ناشتہ کیا تھا ، اس کا بل ادا نہیں ہوا اس لئے آپ کو واپس جا کر اس کا بل دینا پڑے گا۔ لیکن ہم تو بل ادا کر چکے تھے ، خیر تھوڑی دیر میں وہ معاملہ رفع دفع ہوگیا اور ہمیں ائیر پورٹ روانہ کردیا گیا۔ ہمیں یونٹ کے میجر صاحب کی ”پھرتیوں“ پر بہت غصہ تھا لیکن میں دل ہی دل میں خوش بھی تھا کہ کم از کم وہاں ہر کسی کو اپنے ناشتے کا بل تو خود دینا پڑتا ہے ۔ میں اس بات پر بھی خوش تھا کہ فوج میں پٹواری نہیں ہوتے، کم ازکم اس حد تک جس حد تک ہمیں دیکھنے کا موقع ملا۔آرمی ٹریننگ کے چند مہینے بعد ہماری سول اداروں کی تربیت کا آغاز ہوا۔ ہماری پہلی منزل سرگودھا تھی جہاں ہمارا قیام وطعام سرکاری گیسٹ ہاؤس میں تھا۔ چند روز وہاں قیام رہا اورہم ناشتے اور مرغیاں اڑاتے رہے۔ سرگودھا کے ایک دو مجسٹریٹ اور تحصیلدار ہماری میزبانی پر مامور تھے، رخصت ہوتے وقت میں نے ایک دو دوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر ارادہ کیا کہ ہم اپنے ڈیلی الاؤنس سے اپنے کھانے اور قیام کا بل اداکریں گے۔ لیکن وہاں تو ایک عجیب صورتحال پیدا ہو گئی ، نہ ہمارے میزبان پیسے لینے پر آمادہ تھے اور نہ ہی دوسرے ساتھی دینے پر۔ مجسٹریٹ صاحب مسکراتے رہے اور فرماتے رہے ”چھوڑیں جی، ہم اس طرح کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا حساب تھوڑ ے ہی رکھتے ہیں“۔کافی بحث مباحثے کے بعد ہمارے میزبان بھی ہم سے ناراض ہوگئے اور دوسرے پندرہ بیس ساتھی بھی بیزار ہوگئے، پورا زور لگانے کے باوجود ہم اپنا بل ادا نہیں کر سکے، بلکہ زادِ راہ کے طور پر سرگودھا کے بہترین کنو کی پیٹیاں علیحدہ گاڑی میں رکھ دی گئیں(ویسے وہ کنو تھے بہت مزیدار!!)۔
یہ تو ذکر ہے افسر شاہی کی پٹواریت کا ، اب ذرا سیاستدانوں کی پٹواریت کا بھی تھوڑا سا ذکر ہو جائے۔چند دن پہلے اخبار میں دو چار واقعات ایسے رپورٹ ہوئے ہیں کہ لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں سے بڑا کوئی پٹواری ہو ہی نہیں سکتا۔ایک بڑی مشہور وزیر کے بارے میں رپورٹ ہوا کہ وہ سرکاری گھر کے باقی سامان کے ساتھ ساتھ برتن اور ڈونگے تک ساتھ لے گئیں۔ انہی کے ماتحت کام کرنے والے دوست نے ایک دفعہ بتایا کہ جب موصوفہ بحثیت وزیر واپس حلقے میں جاتی ہیں تو سرکاری مال سے گاڑیاں بھر کر روسٹ ، مسڑ کوڈ کی مچھلیاں ، چاولوں کی دیگیں وغیرہ وغیرہ لے کر جاتی ہیں ، اب یہ معلوم نہیں کہ اتنا تھوک کے حساب سے کھانا وہ اپنے ڈیرے پر آنے والے سپورٹروں کو کھلاتی ہیں یا خود کھا جاتی ہیں ، ویسے انکی صحت کو دیکھ کر آپ کوگمان ہوگا کہ وہ سارا کھانا خود ہی کھا جاتی ہو ں گی۔ ایک اور دوست ایک دوسری وزارت میں تعینات تھا ، چھوٹی سی وفاقی وزارت، جس کیلئے دراصل ایک ڈپٹی سیکریٹری لیول کا افسر ہی کافی تھا ،پیپلز پارٹی کے ایک پورے وزیر کا بوجھ اٹھائے بیٹھی تھی۔وزیر صاحب کے شایانِ شان فنڈز تو تھے نہیں لیکن وزیر صاحب بضد تھے کہ انکے اسکواڈ میں چلنے والی پولیس کی گاڑی کے اوپر تین لائٹوں والا لمبا ہوٹر ہونا چاہئے کیونکہ اسکے بغیر تو انہیں حلقے میں کوئی بھی وزیر ماننے کو تیار نہ تھا۔فنڈ کا کوئی بندوبست نہ ہو سکا تو وزارت کے ماتحت اسپتالوں سے فنڈز کا بندوبست کرنے کا کہا گیا۔ بالآخر وزارت کے ماتحت ایک معذوروں کے اسپتال کے کسی ہیڈ سے مطلوبہ رقم کا بندوبست کیا گیا۔ ہمارے سیاسی قائدین جب سرکاری گھروں میں پہنچتے ہیں تو ٹیلیفون، بجلی، گیس وغیرہ بھی ان سے پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ آپ نے یقینا نامی گرامی قائدین کی لاکھوں روپے کی ڈیفالٹ لسٹ چند روز پہلے دیکھی ہوگی۔ہمارے ایک کونسلر سے لیکر وزیراعظم تک سارے سیاستدانوں کے ڈیرے، انکی ریلیاں، انکے جلسے ، انکی شادیوں اور جنازوں میں شرکت وغیرہ کے اخراجات پٹواری کلچر کی بدولت ہی بغیر کسی دقّت کے مہیا ہو جاتے ہیں۔ان اٹھارہ سالوں میں پٹواریت کیہزاروں ایسی مثالیں دیکھنے کو ملیں کہ خود پٹواری بھی کانوں کو ہاتھ لگا لیں، لیکن ان ساری مثالوں سے میر ا مسئلہ تو حل ہو گیا کہ مجھے انسان اور پٹواری کا فرق سمجھ میں آ گیا۔
تازہ ترین