• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دو ماہ سے افغانستان میں امن کی کوششوں کے حوالے سے بہت سارے معاملات سامنے آرہے ہیں اور ان معاملات میں کہیں نہ کہیں ہمارے حوالے سے بھی گفتگو ہو رہی ہے ۔ ابتداء ہی میں عرض کردوں کہ افغانستان میں مکمل امن ہر پاکستانی کی خواہش ہے ۔ اسی لئے جب پاکستان میں افغان علماء کا وفد آیا تو ہم نے ان سے دو دن تک مذاکرات کئے اور کوشش کی کہ افغان علماء کے ساتھ علماء کانفرنس کے حوالے سے کوئی مشترکہ ایجنڈا طے پا جائے لیکن افسوس کہ مشترکہ ایجنڈا طے ہونے کے بعد افغان علماء نے اس سے راہ فرار اختیار کی اور 11 فروری سے لے کر آج تک افغانستان کی حکومت ،افغانستان کے ذرائع ابلاغ بے بنیاد الزامات کا سلسلہ شروع کئے ہوئے ہیں ۔
ہم نے افغان علماء سے یہ گزارش کی تھی کہ ایسی کوئی امن کانفرنس جس میں افغان طالبان شریک نہ ہوں بے فائدہ ہوگی اور اگر پاکستانی علماء اس میں چلے بھی جائیں تو اس کے اثرات مثبت کی بجائے منفی ہوں گے ۔ ہم یہ بات سمجھتے ہیں کہ افغانستان کا مسئلہ افغان گروپوں کو حل کرنا ہے پاکستان اس میں ایک پُل کا کردار ادا کر سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب سب افغان گروپ اس کیلئے راضی ہوں ۔ یہ ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کبھی ہوگا کہ پاکستانی حکومت ،پاکستانی فوج یا پاکستان کے خفیہ ادارے یا پاکستانی علماء ایک حکم جاری کریں اورافغان طالبان اس کو تسلیم کر لیں۔اگر ایسا ممکن ہوتا تو کم از کم ہم پاکستان میں تو دہشت گردی کے اس طرح شکار نہ ہوتے جس طرح آج ہم ہیں۔ افغانستان کے طالبان آزاد اور خود مختار ہیں اور وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں ۔ اگر کسی کو یاد نہ ہو تو اطلاع کیلئے عرض ہے کہ جب مُلا عمر کی حکومت کے وقت پاکستان کی ایک کالعدم تنظیم کے کچھ لوگوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا تھا تو جو جواب ہمیں دیا گیا تھا وہ جواب سب کے علم میں ہے۔ اگر پاکستان میں کسی کی سوچ یہ ہے کہ افغانستان پاکستان کا پانچواں صوبہ ہے اور افغان طالبان کوئی پاکستان کی فورس ہیں تو اس کو یہ تصور ختم کر دینا چاہیے اور اسی طرح اگر افغانستان میں بیٹھے کسی شخص کو یہ تصور ہے کہ ہم برطانیہ اور امریکہ کی تابعداری میں ہر اس کھیل میں شریک ہوجائیں جس کے منفی اثرات صدیوں تک ہمارے ملک پر پڑتے رہیں تو یہ تصور بھی ختم ہونا چاہیے۔ افغان طالبان امن مذاکرات کے عمل میں پاکستان کے بغیر بھی کئی بار شریک ہوئے ہیں لیکن مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔
اس کی وجہ امریکہ کا اپنے وعدے پورا نہ کرنا ہے اور کرزئی کی بے جا مداخلت ہے۔ حالیہ دنوں میں کرزئی حکومت نے جو طرز عمل اپنایا ہے اس سے امن کیلئے کی جانے والی کوششیں مزید سبوتاژ ہوئی ہیں اور لگتا ایسا ہے کہ خود کرزئی حکومت امن نہیں چاہتی ہے کیونکہ آئندہ صدارتی انتخابات میں کرزئی کا مستقبل مخدوش ہے اور کوئی بھی گروپ کرزئی کو اپنے ساتھ لینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اگر امن مذاکرات کی بھی بات کریں تو افغان طالبان کا سوال یہ ہے کہ کرزئی کا گروپ کون سا ہے کہ اس سے ہم بات کریں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ افغان گروپوں سے تو بات کریں وہ افغان عوام کے نمائندہ ہیں لیکن کرزئی کس کا نمائندہ ہے؟ اور اگر ہمیں کرزئی سے بات کرنی ہے تو ہم براہ راست کرزئی کو لانے والے امریکہ سے کیوں نہ بات کریں ۔ اس میں پاکستان کا قصور کیا ہے ؟ کیا افغان امن مذاکرات کے لئے جرمنی سے لے کر پیرس تک اور پیرس سے لے کر دبئی تک جو کوششیں ہوئی ہیں وہ اسی لئے نامکمل رہیں کہ امریکہ نے جو وعدے کئے وہ پورے نہیں کئے اور کرزئی حکومت نے ان کوششوں کو سبوتاژ کیا ۔ افسوس تو یہ ہے کہ افغان علماء کے وفد کے جانے کے بعد بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان کی وزارت خارجہ اور پاکستان میں افغانستان کے سفیر اس کوشش میں مصروف تھے کہ افغان علماء اور پاکستانی علماء دوبارہ بیٹھیں لیکن افغانستان کے ایک ٹی وی نے بے بنیاد بات کر کے ماحول کو ایک بار پھر خراب کیا اور اس بے بنیاد بات کو بغیر تحقیق کے افغان صدر حامد کرزئی نے میرے خلاف پریس کانفرنس میں استعمال کرتے ہوئے مجھے اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا حالانکہ اس پورے انٹرویو میں کہیں پر بھی خود کش حملوں کا ذکر ہی نہیں تھا اور میں نے اس میں اس بات کو بھی واضح کر دیا تھا کہ میں مفتی نہیں ہوں کہ جو فتویٰ دے ۔ افغانستان کے امن مذاکرات میں کامیابی اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب تمام فریق سنجیدہ ہوں لیکن اگر اسی طرح الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہا تو افغان امن مذاکرات کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور 2014ء کے بعد جو صورتحال اس خطے میں پیش آئے گی اس کا تصور کرنا بھی فی الحال مشکل ہے ۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ الزام تراشی کا سلسلہ بند کر کے حقائق پر غور کیا جائے اور حقائق یہ بتلاتے ہیں کہ افغانستان میں امن ، افغان طالبان کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو 11 سال بعد آج امریکہ ان سے مذاکرات نہ کر رہا ہوتا۔
پاکستان کے علماء افغانستان تو کیا ہر جگہ امن کی بات کرنے اور امن کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں لیکن اگر اس کا مقصد کسی ایک فریق کو راضی کرنا اور دوسرے فریق کے خلاف فتوے بازی کرنا ہو تو اس کیلئے ہم قطعی طور پر تیار نہیں ہیں۔
تازہ ترین