• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان بنیادی خسارہ کم کرنے کیلئے بجٹ میں 1150 ارب کی مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کرے، آئی ایم ایف کا مطالبہ

اسلام آباد(مہتاب حیدر) آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیاہے کہ وہ بجٹ میں 1150ارب روپے کی مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کرے تاکہ بنیادی خسارہ کم کیا جاسکے ۔آئی ایم ایف اسٹاف نے تجویز دی ہے کہ تمام غیرترقیاتی اخراجات بشمول تنخواہیں اور دفاعی اخراجات کو منجمد کردیا جائے۔ 

باوثوق ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی 6 ارب ڈالرز کی توسیعی فنڈ سہولت(ای ایف ایف) اسی وقت بحال ہوگی جب حکومت، آئی ایم ایف کے میکرواکنامک فریم ورک کے مطابق آئندہ بجٹ پیش کرے گی۔ 

اب پاکستان بنیادی خسارے/مالی خسارے کے اہداف کے حوالے سے بڑی نرمی کا خواہاں ہے تاکہ معیشت بحال ہوسکے اور اگر حکومت ، آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگئی تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ 

حکام کے مطابق، آئی ایم ایف اسٹاف نے اپنے حالیہ دورہ اسلام آباد میں سخت پالیسیوں کی تجویز دی ہے اور پاکستانی حکام کو خبردار کیا ہے کہ وہ غیرمستحکم قرضوں کے جال سے اجتناب کرے۔ 

پاکستان کے مجموعی قرضے اور واجبات 42820 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جو کہ جی ڈی پی کا 98.2 فیصد بنتا ہے۔ جب کہ یہ جی ڈی پی کے 100 فیصد کے برابر ہونے جارہا ہے۔ 

آئی ایم ایف اسٹاف نے سوال اٹھایا کہ جب جی۔20 ممالک اپنے سرکاری اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کرسکتے ہیں تو پاکستان کیوں ایسا نہیں کرسکتا؟ 

ان کا کہنا تھا کہ اچھے کام کا آغاز گھر سے ہونا چاہئے جب کہ پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ مہنگائی دوہرے ہندسے میں برقرار ہے اس لیے تنخواہیں منجمد کرنا مناسب نہیں ہے۔

پاکستانی حکام اس ضمن میں دیگر تجاویز پر غور کررہے ہیں ان میں خالی اسامیوں پر بھرتی پر پابندی برقرار رکھنا، گاڑیوں اور دیگر سامان کی خریداری پر پابندی وغیرہ شامل ہے۔

پاکستانی حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ بنیادی خسارہ اس طرح آسانی سے کم نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس میں بتدریج کمی کی جائے گی۔ آئی ایم ایف تجاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے سرکاری اخراجات پر سخت دبائو ہے۔ 

پاکستانی حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ اخراجات میں بھی کوئی زیادہ کمی نہیں کی جاسکتی کیوں کہ بجٹ اخراجات قرضوں کی ادائیگی، دفاعی اور ترقیاتی اخراجات میں لگ جاتے ہیں۔ 

ان میں سے دفاعی بجٹ اور قرضوں کی ادائیگی میں نا ہی کمی کی جاسکتی ہے اور نا ہی انہیں منجمد کیا جاسکتا ہے۔ صرف وزارتوں اور محکموں کو کم کرنے کا راستہ بچتا ہے۔ 

وزارت خزانہ نے وزارتوں اور محکموں کی 109 درخواستوں کا تجزیہ کیا ، جس کے مطابق ان اخراجات میں کمی کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ قرضوں کی ادائیگیاں بھی رواں مالی سال کے دوران 2700 ارب روپے سے بڑھ کر 3150 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے حالاں کہ شرح سود میں کمی کی گئی ہے۔ 

وزارت خزانہ کے ابتدائی تخمینے کے مطابق، خریداری پر پابندی اور دیگر سادگی اقدامات سے 50 ارب روپے بچائے جاسکتے ہیں جبکہ پاور سیکٹر کی سبسڈی میں بھی آئندہ بجٹ میں 50 ارب روپے سے 70 ارب روپے کی کمی کی جاسکتی ہے۔

تازہ ترین