• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس فائز عیسیٰ کیس، اس شخص کا نام بتائیں جس کے کہنے پر ریفرنس بھیجنا طے ہوا، سپریم کورٹ

 اس شخص کا نام بتائیں جس کے کہنے پر ریفرنس بھیجنا طے ہوا، سپریم کورٹ


اسلا آباد(نمائندہ جنگ) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وغیرہ کی جانب سے صدارتی ریفرنس کیخلاف آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے حکومتی وکیل فروغ نسیم سے کہا ہے کہ اس شخص کا نام بتائیں جسکے کہنے پر ریفرنس بھیجنا طے ہوا، جس نے تعین کیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں؟ 

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے جج کیخلاف ریفرنس کوئی چھوٹا معاملہ نہیں،ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ ریفرنس کی تیاری میں کوئی بدنیتی تو نہیں ہوئی ؟ 

جسٹس منصور علی نے کہا کہ اے آر یو کو قانون کا تحفظ نہیں، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ریفرنس صرف کریز سے باہر نکل کر شاٹ لگانے پر بنا، جسٹس یحیی آفریدی نے کہا ےکہ عدالت عظمی نے اے آر یو بنانے کا حکم کہاں دیا؟، جبکہ وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ میری دلیل یہ نہیں کہ عدالتی حکم پر اے آر یو بنا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ عدالت کو بتا دیں کہ معاملہ ٹیکس اتھارٹی کو بھیجنے کی بجائے ریفرنس بنانے کی تجویز کس نے دی تھی؟ 10 ہزار روپے ٹیکس کی عدم ادائیگی پر ریفرنس نہیں بن جاتا ہے، ایسا جرم بتائیں جس سے ایک جج پر اعتماد مجروح ہوا ہو؟ 

ریفرنس کے مواد پر صدر کو اپنا ذہن استعمال کرنا ہوتا ہے،، صدر مملکت آرٹیکل 48 کے تحت ریفرنس نا مکمل ہونے پر واپس بھیج سکتے ہیں، وہ ریفرنس بھجوانے کے مشورے پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں، صدر مملکت کے وزیراعظم کے مشورے پر ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھجوانے کا پابند ہونے کی دلیل غلط ہے۔ 

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10رکنی فل کورٹ بنچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو فروغ نسیم نے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیارکہ عدالتی سوالات سے مجھے بہت معاونت ملی ہے میں 27 ایسے قانونی نکات ہیں جن پر دلائل دوں گا۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کے سوالات ریفرنس کی مبینہ بدنیتی سے متعلق ہیں، عدالت نے اثاثہ جات وصولی یونٹ ،اس کے کردار اور قانون سے متعلق سوال کیے ہیں،شکایت صدر مملکت کو بھیجنے کے بجائے اے آر یو کو پذیرائی کیوں دی گئی۔

جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ صدر مملکت نے ریفرنس کے مواد پر اپنی رائے کیسے قائم کی تھی ؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 209 محض ایک آرٹیکل نہیں ہے بلکہ یہ عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ شہزاد اکبر کی اہلیت اور صلاحیت باقی جگہوں پر بھی نظر آنی چاہیے تھی؟جسٹس عمر عطا نے پوچھا کہ اب تک اے آر یو کی کارکردگی کیا ہے؟ 

جس پر فاضل وکیل نے جواب دیا کہ ٹاسک فورس بنانے کے فیصلے کے نتیجے میں اے آر یو کا قیام عمل میں آیا، کابینہ نے ہی ٹاسک فورس کے قواعد و ضوابط کی منظوری دی تھی ، شہزاد اکبر کو اثاثہ جات کے معاملات پر مکمل عبور ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ صدر مملکت کی رائے آزاد ہوتی ہے یا کسی پر منحصر ہوتی ہے، یہ بڑا اہم سوال ہے پہلے دیگر اہم چیزوں کو مکمل کریں۔

جسٹس یحیی آفریدی نے پوچھا کہ یہ بتا دیں کہ عدالت عظمی نے اے آر یو بنانے کا حکم کہاں دیا تھا؟ جس پر فاضل وکیل نے جواب دیا کہ اے آر یو رولز آف بزنس کے تحت بنایا گیا، میری یہ دلیل نہیں کہ عدالت کے حکم پر اے آر یو کو بنایا گیاتھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اے آر یو کو قانون کا تحفظ نہیں ، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اے آر یو انکوائری کے لیے نجی ایجنسی کی خدمات کیسے حاصل کر سکتا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اے آر یو قانون کے تحت قائم کیا گیا ادارہ نہیں ہے تو پھر کسی معاملے کی انکوائری کیسے کر سکتا ہے؟

جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ وزیراعظم ریاستی اداروں کو کرپشن کی تحقیقات کا نہیں کہہ سکتے؟ وزیر اعظم ایک نجی شخص کو بلا کر ذمہ داری دے دیتے ہیں؟ 

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اے آر یو کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کا فیصلہ کرسکتا، پھر یہ کس کے دماغ میں بات آئی کہ یہ کیس جج کے مس کنڈکٹ کا بنتا ہے۔

تازہ ترین