• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہرین تبسّم

علی، عُمر، عمیر بہت ہی اچھے دوست تھے اور ایک ہی اسکول میں تیسری جماعت میں پڑھتے تھے۔تینوں دوستوں میں علی تھوڑا ضدّی تھا، اگر اسے کسی کام سے روکا جاتا تووہ چڑچڑا ہوجاتا، لیکن وہ عمر ، عمیر کی طرح اپنے بڑوں کا ادب کرنے والااور نیک دل بچہ تھا۔ ایک دن عمر صبح اُٹھا تو اس نے اپنی امّی سے کہا، ’’امّی جان! آپ نے مجھے اسکول کے لیے کیوں نہیں جگایا، آج تو اتوار بھی نہیں ہے‘‘ امّی نے کہا ’’بیٹا! تمہارے اسکول کی لمبی چھٹیاں ہوگئی ہیں۔‘‘’’ اوہ، ہمارے تو امتحان ہونے والے ہیں، پھر میں پڑھائی کیسے کروں گا؟‘‘اس نے افسوس بھرے لہجے میں کہا، پھر اچانک کچھ سوچتے ہوئے کہا، مگر امّی جان! اسکول کی چھٹیاں ہوئی کیوں ہیں؟‘‘

’’بیٹا! وہ اس لیے کہ ایک وائرس پھیل رہا ہے، جس کو ’’ کورونا‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جس کی ابتدا چِین سے ہوئی اور اب یہ کئی ممالک سمیت، ہمارے مُلک پاکستان میں بھی پھیل کر اموات کا سبب بن رہا ہے۔اس کا علاج تو اب تک دریافت نہیں ہوسکا، البتہ اگر ہم احتیاط کریںتو اس وبا سے بچ سکتے ہیں۔‘‘

’’امّی جان! کس طرح کی احتیاط کرنی ہے؟‘‘ عمر نے پوچھا۔

’’بیٹا! احتیاط تو بہت ضروری ہے، کیوں کہ احتیاط ، علاج سے بہتر ہے۔‘‘چند احتیاطی تدابیر ہیں، جن پر ہمیں عمل کرکے کورونا کو ہرانا ہے۔ سب سےپہلے ہمیں اپنے ہاتھوں کو بار بار کم از کم بیس منٹ تک صابن اور پانی سے اچھی طرح دھونا ہے، کیوں کہ وائرس چھونے سے پھیلتا ہےاور اگر پانی نہیں ہے تو اپنے ہاتھوں کو سینیٹائز کریں۔ ایک دوسرے سے ایک میٹر کے فاصلے پر رہیں، رش وغیرہ یا کسی تقریب میں جانے سے گریز کریں ، ماسک کا استعمال کریں،تاکہ کورونا وائرس سانس کے ذریعے ہمارے اندر داخل نہ ہو سکے، کھانستے اور چھینکتے وقت ہاتھ کے بجائے، بازو یا ٹشو پیپر سے منہ کو ڈھانپے، بلا ضرورت گھر سے باہر ہر گز نہ نکلیں ۔ اگر ہم نے ان چند تدابیر پر عمل کر لیا تو پھر ہم کورونا کو ہرا سکتے ہیں۔‘‘

’’ امّی جان !پھر تو سمجھیں ہم نے کورونا کو ہرا دیا۔‘‘ عمر نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’امی جان! ایک اور بات ہمیں یہ کیسے پتا چلے گا کہ فلاں شخص کو کورونا ہے،اس کی علامات کیا ہیں؟‘‘’’بیٹا! اس علامات میں کھانسی، زکام، بخار اور سانس لینے میں دشواری شامل ہیں۔ ڈرنا نہیں ہے، کیوں کہ ہر نزلہ، زکام اور کھانسی کورونا نہیں ہو سکتی۔احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہمیں گھر پر رہ کر نماز پڑھنی چاہیےاور اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگنی چاہیے کہ ’’اللہ تعالیٰ ہم سب کو حفظ و امان میں رکھے۔ آمین‘‘

’’ مَیں آج ہی اپنے دوستوں کو فون کرکے ساری احتیاطی تدابیر بتا دوں گا، پھر اس نے عمیر سے بات کی، اس نے عمیر کو ساری احتیاطی تدابیر بتادیں۔ عمیر نے کہا ’’ہاں، امّی نے مجھے صبح اس وبا کے بارے میں بتا دیا تھا اور میں نے سوچ لیا تھا، احتیاط ضرور کروں گا، کیوں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔‘‘ اچھا اب میں علی سے بات کرتا ہوں، خدا حافط کہہ کر علی کو فون کیا، جب وہ اسے احتیاطی تدابیر بتا رہا تھا، تو علی نے کہا، ’’عمر ! تم مجھے پلیز اس کورونا اور احتیاطی تدابیر کے حوالےسے لیکچر مت دو، میں پہلے ہی افسردہ ہوں، اس نے میرا گھر سے نکلنا بند کر دیا ہے۔اب میں پارک میں کیسے کھیلوں گا۔ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ اللہ حافظ‘‘علی نے فون بند کردیا۔

اگلے دن جب علی صبح اُٹھا تو اُسے بخار تھا، وہ ایک دم ڈر گیا، کیوں کہ بخار بھی کورونا کی علامات میں سے ایک علامت ہے۔ اُس نے سوچا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے، اس سے تو اچھا تھا کہ میں ان چند احتیاطی تدابیر پر عمل کرلیتا، اب کیا ہوگا، اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس کی امّی نے کہا، ’’بیٹا! تم خوامخواہ پریشان ہو رہے ہو، میں ابھی تمہارے ابّو کو بلا کر لاتی ہوں، ۔ علی کے ابو ڈاکٹر تھے۔ انہوں نے فوراً علی کا چیک اپ کیا اور اسے تسلّی دیتے ہوئے کہا ’’بیٹا یہ تو معمولی بخار ہے، میں تمہیں ابھی دوا دیتا ہوں، میں تو سمجھتا تھا کہ تم بہت بہادر ہو، تم تو بخار ہی سے ڈر گئےپھر کورونا سے کیسے لڑوگے۔ علی نے کہا ’’لڑوں گا نا ابو جان، احتیاطی تدابیر کے ساتھ۔‘‘

پیارے بچّو! آپ بھی احتیاطی تدابیر پر عمل کریں، تاکہ ہم سب مل کر کورونا کو ہرا دیں۔

تازہ ترین