• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جعلی ڈگری کے مقدمات میں کئی سیاست دانوں کو جیل بھیج دیا گیا ہے اور کئی سیاستدان گرفتاری سے بچنے کے لئے روپوش ہوگئے ہیں۔ متعدد سیاست دانوں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوچکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین میں محمد نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی پر اعتراضات داخل کردیئے گئے ہیں۔ ریٹرنگ افسروں کے سوالوں کے امیدواروں کی طرف سے جوابات کی مضحکہ خیز خبریں شائع ہورہی ہیں اس طرح کا تاثر پیدا ہورہا ہے یا کیا جارہا ہے کہ ساری برائیاں اس ملک کے سیاست دانوں میں ہیں اور باقی سب لوگ پارسا ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ایسے حالات ازخود پیدا نہیں ہوئے بلکہ پیدا کئے گئے۔ انہی کالموں میں بار بار لکھا جاچکا ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد احتساب کے نام پر سیاسی قوتوں کو کچلنے اور سیاسی عمل کو روکنے کے لئے اقدامات شروع کردیئے گئے تھے اور ”پراڈو“اور”ایبڈو“ کے سیاہ قوانین کے ذریعے تحریک پاکستان کے محترم قائدین کو نااہل قرار دے کر اور جیلوں میں ڈال کر سیاست سے بے دخل کیا گیا۔ اس ملک میں احتساب کی بنیاد ہی بدنیتی پر رکھی گئی اور سیاسی وجمہوری عمل کو روکنے کے لئے ہر چیز کو جائز قرار دیا گیا۔ آج جو تماشا ہورہا ہے، وہ کیا ہے؟ سیاست دانوں کو جعلی ڈگریوں پر جیل بھیجا جارہا ہے یا پانی چوری کے الزام میں ان کے کاغذات مسترد کئے جارہے ہیں جبکہ آئین توڑنے والے جنرل(ر) پرویز مشرف کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان کہتے ہیں کہ کسی کو جرأت ہے تو اسے گرفتار کرے، ہر کام عدالت پر تو نہ چھوڑا جائے۔
جب سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے ارکان پارلیمینٹ کے لئے گریجویٹ ہونے کی شرط عائد کی تھی، اسی وقت ہی آئین کی تشریح کرنے والی پاکستانی عدالتوں کو ازخود نوٹس لینا چاہئے تھا اور یہ فیصلہ دینا چاہئے تھا کہ مذکورہ شرط آئین کی بنیادی روح اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ نان گریجویٹس کو عوامی نمائندگی کے حق سے محروم کرنے کی اجازت دنیا کا کون سا آئین یا چارٹر دیتا ہے۔ یہ کون سی منطق ہے کہ ایک شخص وزیر اعظم پاکستان کے منصب پر فائز رہا اور اچانک اس کے لئے یہ قانون آجائے کہ وہ اسمبلی کارکن بننے کا بھی اہل نہیں ہے کیونکہ وہ گریجویٹ نہیں ہے۔ غلام مصطفی جتوئی مرحوم گریجویٹ نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ ان جیسے کئی سینئر اور منجھے ہوئے سیاست دان اسمبلیوں میں پہنچنے سے محروم رہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ گریجویٹس کی شرط صرف اس لئے عائد کی گئی تھی کہ پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو انتخابات سے دور رکھا جائے کیونکہ پاکستان کے ”چاچے مامے“ اس بات پر خوش تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاس جو غیر ملکی ڈگری تھی وہ گریجویٹس کے مساوی نہیں ہے۔ میڈیا کے ذریعے یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ”اَن پڑھ“ لوگ اسمبلیوں پر قابض ہیں۔ ایک سانحے میں ڈھلا پاکستان کا ایک مخصوص نام نہاد پڑھا لکھا طبقہ ایسے گھٹیا پروپیگنڈے سے بہت متاثر ہوتا ہے اور واہ واہ کرتے نہیں تھکتا حالانکہ انہیں معلوم نہیں کہ عوامی سیاست کرنے والے ایک اَن پڑھ شخص کی دانش کسی پی ایچ ڈی سے زیادہ ہوتی ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کو سیاست میں آکر اب اس بات کا اندازہ ہوگیا ہوگا کہ سیاست دان کس قدر معتبر انسان ہوتا ہے اور ایک نشست پر کامیابی کے لئے سیاست دان احتساب کے کتنے مراحل سے گزرکر آتا ہے۔ گریجویشن کی شرط کے پیچھے بھی ایک بدنیتی تھی۔ خالص اشرافیہ کی جمہوریت کے نفاذ کے لئے ایسی شرائط مغرب کی قدیم جمہوریتوں میں تاریخ کے کسی مرحلے پر عائد نہیں کی گئیں۔ یہ شرط عائد کرنے کے لئے جس پارلیمینٹ نے قانون میں ترمیم کی وہ پارلیمینٹ عوام کی حقیقی منتخب اور نمائندہ نہیں تھی اور ایسے انتخابات کے ذریعے وجود میں آئی تھی جن میں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو باہر رکھا گیا تھا۔
گریجویٹس کی شرط عائد کرنے کے بعد اخلاقی طور پر انتخابی امیدواروں کو دو یا چار سال کا وقت دیا جاتا اور اس شرط کا اطلاق چار یا پانچ سال بعد ہوتا۔ ایسا بھی نہیں کیا گیا۔ اب اگر اچانک یہ قانون بن جائے کہ سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان قانون میں پی ایچ ڈی ہوں گے یا فوجی جرنیل دفاعی ٹیکنالوجی میں ایک مخصوص ڈگری کے حامل ہوں گے تو اچانک اس قانون کا نفاذ کیا مبنی برانصاف ہوگا؟ تمام ججوں اور تمام جرنیلوں کو اعلیٰ تعلیم کی شرط عائد کرکے اچانک ان کے عہدوں سے فارغ کرنا اخلاقی اور قانونی طور پر بھی درست نہیں ہوگا اور قومی مفاد میں بھی نہیں ہوگا کہ تجربہ کار اور سینئر لوگوں سے اداروں کو محروم کردیا جائے۔ اگر اداروں میں کیپسٹی بلڈنگ کے لئے ایسی شرط ضروری بھی ہو تو بھی حاضر سروس ججوں اور جرنیلوں کو پہلے یہ موقع فراہم کرنا چاہئے کہ وہ مطلوبہ تعلیمی یا پیشہ ورانہ قابلیت حاصل کریں اور اس کے لئے انہیں وقت دیا جانا چاہئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک سیاستدانوں کو سیاست سے باہر کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا گیا اور اب جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی سیاست دانوں کو سیاست سے باہر کرنے اور انہیں لوگوں کی نظروں میں گرانے کے لئے ہو رہا ہے۔ عوام کی ایک حقیقی منتخب اسمبلی نے گریجویشن کی شرط ختم کی، اس کامطلب یہ ہے کہ یہ شرط ہی غلط تھی۔ اگر سیاستدان جعلی ڈگریاں بنوانے پر مجبور ہوئے تو انہیں اس کے لئے کس نے مجبورکیا۔ سزا اس فوجی آمر کوملنی چاہئے، جس نے آئین کی بنیادی روح کے خلاف قانون سازی کرائی۔ سیاست دانوں پر رحم کیا جائے گزشتہ 66 سالوں سے جو کچھ ہورہا ہے، اس کا تسلسل توڑا جائے۔
یہ ٹھیک ہے کہ کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد کرنا ریٹرننگ افسروں کا قانونی اختیار ہے لیکن جس طرح کے کاغذات نامزدگی بنائے گئے ہیں، کوئی بھی امید وار تسلی بخش طور پر انہیں پُر نہیں کر سکتا۔ جہاں تک آئین کے آرٹیکل62/اور 63 کا تعلق ہے، پاکستان میں کوئی بھی شخص الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔ آرٹیکل62/اور 63 کی آڑ میں امیدواروں سے عجیب وغریب سوالات پوچھے جارہے ہیں۔ یہ پاکستان کا پہلا الیکشن ہے جس سے پہلے بڑی تعداد میں سیاست دانوں کو نااہل قرار دیا جا رہا ہے اور ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے جارہے ہیں۔ بعض سیاسی جماعتیں ” بڑے بڑے“ جلسے کررہی ہیں اور بعض سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خوف سے عوام سے رابطہ نہیں کرپارہی ہیں۔ مخصوص سوچ کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ پاوٴں باندھ دیئے گئے ہیں۔ ایسے حالات میں لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہورہا ہے؟ ہماری بھی خواہش ہے کہ پارسا لوگوں اور فرشتوں کی اسمبلیاں ضرور وجود میں آئیں لیکن اس سے پہلے یہ دعا ہے کہ انتخابات ہوجائیں کیونکہ قیام پاکستان سے اب تک ہمارا قومی تجربہ یہ ہے کہ پارسا لوگوں کی طرف سے گناہ گار سیاستدانوں کے احتساب کا واحد طریقہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ جمہوری عمل کو روک دیا جائے، اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو۔ خوف صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ سیاست دانوں کو دھڑا دھڑ جیلوں میں بھیجا جا رہا ہے اور پورے پاکستان میں کسی کو یہ جرأت نہیں کہ وہ پرویز مشرف کو گرفتار کرسکے۔
تازہ ترین