• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے پنشن اخراجات ترقیاتی ترجیحات کیلئے خطرہ ہیں، ورلڈ بینک

اسلام آباد (انصار عباسی) ورلڈ بینک نے حکومتِ پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اس کی پنشن اسکیموں کے اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں اور اگر ان اخراجات پر قابو نہ پایا گیا تو ملک میں ترقیاتی ترجیحات کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

وزارت خزانہ کے ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں حکومت کو بتایا ہے کہ تخمینوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پنشن کے اخراجات بمع بڑھتی تنخواہوں کے اخراجات آئندہ برسوں میں بڑھتے چلے جائیں گے جس سے دیگر شعبہ جات کے اخراجات کم ہوتے جائیں گے۔

تاہم، ورلڈ بینک رپورٹ میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ حکام ان بڑھتے اخراجات پر قابو پا سکتے ہیں اور ایکوئٹی میں بہتری اور مراعات کا تخمینہ بہتر انداز سے لگایا جا سکتا ہے؛ اس کیلئے مراعات کی اشاریہ سازی (Indexation) کو محدود کرنا ہوگا جبکہ ایسے افراد کی مراعات میں کمی لانا ہوگی جو جلد ریٹائر ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں موجودہ پنشن اسکیم کی وجہ سے مستقبل کے اخراجات کا تخمینہ بھی پیش کیا گیا ہے اور معیارات کی تبدیلی کے ذریعے اصلاحات کی غرض سے اس میں مناسب سہولتوں کا احاطہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری ملازمت میں آنے والے نئے افراد کیلئے ایک ایسی ہائبرڈ اور حصہ داری پر مشتمل طے شدہ اسکیم متعارف کرائی جائے جو غیر سرکاری ملازمین کیلئے بھی ممکنہ پنشن کا پلیٹ فارم فراہم کر سکے۔

ورلڈ بینک کی یہ رپورٹ وفاقی، پنجاب اور سندھ کی سطح پر وزارت خزانہ کی درخواست پر تیار کی گئی ہے۔ اس میں ایسے تخمینے پیش کیے گئے ہیں جن کی مدد سے سول سروس ریٹائرمنٹ اسکیموں کے حوالے سے مراعات و اخراجات کے مناسب ہونے کا تعین کیا گیا ہے۔ اس میں اصلاحات کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیوں کے اثرات کا جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔

ان کی مدد سے اہلیت کی شرائط تبدیل ہو جائیں گی اور ساتھ ہی وہ اثرات بھی پیش کیے گئے ہیں جو حصہ داری پر مشتمل نئی اسکیم لانے کے نتیجے میں سرکاری ملازمتوں میں نئے آنے والوں پر مرتب ہوں گے۔

رپورٹ کی ایگزیکٹو سمری کے مطابق، پنجاب اور سندھ کے سول سروس پنشن اسکیم کے اخراجات 2060ء میں ہونے والی آمدنی کے مقابلے میں دگنا ہو چکے ہوں گے اور اس میں یہ بات بھی مد نظر رکھنا ہوگی کہ اگر پنشن بھی روزانہ اجرت کے حساب سے بڑھتی رہے لیکن اس کے باوجود اسے آمدنی کے 15؍ فیصد تک محدود کیاجا سکتا ہے بشرطیکہ مراعات میں ہونے والے اضافے کو کنزیومر پرائس میں بڑھوتری کے مقابلے میں محدود رکھا جائے۔

مراعات میں کی جانے والی ایڈجسٹمنٹ کو محدود کرنے سے سول سروس پنشن کے اخراجات کو مستحکم رکھا جا سکتا ہے۔ بنیادی تنخواہ اور پنشن کو مستحکم سطح پر رکھنا ایک باعث تشویش کام ہے جس میں پنشن کے اخراجات جلد ہی بنیادی تنخواہ کے اخراجات سے بھی دگنا ہونے کا امکان ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ 2020ء میں صوبائی آمدنی کا 25؍ فیصد حصہ اندازے کے لحاظ سے تنخواہوں اور پنشن کی مد میں دینا پڑے گا اور یہ سطح 2060ء میں بڑھ کر 50؍ فیصد ہو چکی ہوگی جبکہ سندھ میں 2020ء میں آمدنی کے لحاظ سے پنشن اور تنخواہوں کے اخراجات 32؍ فیصد رہیں گے جو 2060ء میں بڑھ کر 42؍ فیصد ہو جائیں گے۔ سول سروس کی مد میں ہونے والے اخراجات اور پنشن کی مراعات اس طرح دیگر سرکاری اخراجات کے مقابلے میں زیادہ ہو جائیں گے۔

مزید برآں، 2023ء میں پنشن کے اخراجات روزانہ اجرت کے مقابلے پنجاب میں 2023ء تک جبکہ سندھ میں 2028ء تک بڑھ جائیں گے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان میں مکمل کیریئر کے حامل ملازمین کو بھرپور مرعات دی جاتی ہیں اور انہیں ریٹائرمنٹ سے قبل کی بنیادی اجرت کا 122؍ فیصد حصہ ملتا ہے، لیکن یہ مراعات اس وقت بہت کم نظر آتی ہیں جب انہیں مکمل معاوضے کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جائے۔

رپورٹ کے مطابق، غیر اجرت معاوضے کے اعداد و شمار کا جائزہ لینے پر ہی حکام کو اندازہ ہوگا کہ یہ مراعات موزوں ہیں اور ان میں اصلاحات کا مکمل پہلو موجود ہے۔ الائونس کی اہمیت میں تبدیلی کی وجہ سے پنشن غیر منصفانہ ہو جاتی ہیں- کچھ کیلئے یہ موزوں ہیں اور کچھ کیلئے نہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماضی کے اخراجات اور مستقبل کے اخراجات میں ممکنہ اضافے کی اہم وجوہات یہ ہیں:

1) سرکاری ملازمین کی اجرت، پنشن مراعات اور الائونس میں حقیقی اضافہ، 2)سپریم کورٹ کا نافذ کیا گیا فیصلہ جس میں کمیوٹڈ مراعات بحال کی گئی تھیں،

3)سول سروس ہیڈ کائونٹ میں اضافہ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین کی پنشن اسکیموں میں ملازمین کی ایکوئٹی اور مراعات کے امکانات میں بھی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔

تازہ ترین