• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ میرے دوستو! آج مَیں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تمام مشکلات تر کے باوجود میرا ایک خواب ہے، جو درحقیقت امریکی خواب میں پنہاں ہے۔میرا خواب ہے کہ ایک دن یہ قوم اس مقصد کے لیے کھڑی ہو، جس کے لیے یہ بنی۔ یہ سچائی سب جان لیں کہ تمام انسان برابر پیدا کیے گئے ہیں۔ میرا یہ خواب ہے کہ ایک دن سابق غلاموں کی اولاد اور اُن کے سابق آقائوں کی اولاد ایک ہی میز پر بیٹھے اور وہ بھائی چارے کی میز ہو۔‘‘ یہ الفاظ امریکا کے معروف سماجی رہنما اور انسانی حقوق کے سب سے بڑے علم بردار، مارٹن لوتھر کنگ کے ہیں۔ یہ الفاظ اُس ستّر منٹ کی تقریر کا حصّہ ہیں، جو کنگ نے اپنے قتل سے قبل واشنگٹن میں ایک عظیم الشّان ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کی۔

لوتھر کنگ کا یہ خواب اور الفاظ موجودہ امریکی تاریخ کی اہم سمت مانے جاتے ہیں۔تاہم، جون کے پہلے ہفتے میں امریکا کے طول وعرض میں جس قسم کے پُرتشدّد مظاہرے دیکھے گئے، اُن سے ایک مرتبہ پھر یہ خیال مضبوط ہوا کہ یہ خواب ابھی ادھورا ہے۔ سیاہ فام باشندے، جارج فلائیڈ کے ایک پولیس اہل کار کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کی ویڈیو نے پَل بھر میں امریکا میں آگ لگا دی۔ 

اس ویڈیو میں سب سے دردناک منظر وہ ہے، جس میں سڑک پر پڑا جارج فلائیڈ پولیس اہل کار کے گھٹنے تلے دبا فریاد کر رہا ہے کہ ’’ مَیں سانس نہیں لے پارہا‘‘ اور پھر وہ جان ہار گیا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوئی، تو لوگ سڑکوں پر سراپا احتجاج بن گئے۔ دو تین دن میں امریکا کے چالیس شہروں میں کرفیو لگانا پڑا۔مظاہرے اِتنے شدید تھے کہ پولیس کے لیے اُنہیں کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا اور نیشنل گارڈز کو طلب کرنا پڑا۔نیشنل گارڈز ہمارے مُلک کے رینجرز کی طرح ہیں، جو قانون نافذ کرنے میں پولیس کی مدد کرتے ہیں۔ 

واشنگٹن میں تو فوج کے دستوں کو بھی تیار رہنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ مظاہرہ کرنے والے سیاہ فام انصاف مانگ رہے تھے۔ اُن کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ امریکی معاشرے میں اُن سے برتی جانے والی تفریق کا خاتمہ کیا جائے۔اگر غور کیا جائے، تو یہ بالکل وہی بات ہے، جو 57 سال پہلے مارٹن لوتھر کنگ نے کہی تھی۔یعنی دو نسلوں کے بعد آج امریکا کو پھر اُسی مسئلے کا سامنا ہے۔

زیادہ تر مظاہرے پُرامن تھے، لیکن تعداد بہت زیادہ تھی اور اُن میں ہر طبقے کے لوگ، خاص طور پر سیاہ فام امریکی بڑی تعداد میں شامل تھے۔ جنہوں نے پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جن پر’’ آئی کانٹ بریتھ‘‘درج تھا اور یہ جارج فلائیڈ کے آخری الفاظ کے علاوہ ایک واضح پیغام بھی تھا کہ معاشرے میں اُن کے ساتھ اتنی ناانصافی ہو رہی ہے کہ اُن کا جینا دوبھر ہو چُکا ہے۔ کئی شہروں میں مظاہرے پُرتشدّد بھی رہے۔یہ سلسلہ ایک ہفتے سے زیادہ جاری رہا اور لاکھوں لوگوں نے مظاہروں میں شرکت کی۔ 

اس دوران دُکانیں اور بازار لُوٹے گئے۔پولیس اور شہریوں کی گاڑیوں کو جلایا گیا۔ عمارتوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ تشدّد کرنے والوں کا کہنا تھا کہ ناانصافی نے اُنہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا کہ جب کوئی اور راستہ نظر نہ آیا، تو حکومت کی توجّہ مبذول کروانے کے لیے جلائو گھیراو اور توڑ پھوڑ کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔جب کہ عدم تشدّد کے حامیوں کا کہنا تھا کہ مظاہرے ضرور کیے جائیں، تاہم املاک کو نقصان پہنچانا مناسب طرزِ عمل نہیں۔

اسی لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ٹویٹ کیا کہ تشدّد سے جارج فلائیڈ کی قربانی کو نقصان پہنچے گا، لیکن پھر ایک اور ٹویٹ میں، جو اُن کی عادت کے عین مطابق تھی، کہا’’ اگر تشدّد ہوگا، تو پھر جوابی شوٹنگ بھی ہوسکتی ہے۔‘‘فلائیڈ کا قتل کیوں اور کیسے ہوا؟ بتایا جاتا ہے کہ پولیس اہل کار جعلی کرنسی پھیلانے کی اطلاعات پر کارروائی کر رہے تھے۔اِس سلسلے میں وہ جارج کی گاڑی کے قریب پہنچے۔پولیس کے مطابق، اُنہیں گاڑی سے باہر آنے کے لیے کہا گیا، تو اُنہوں نے مزاحمت کی، جس پر اُنہیں ہتھکڑی لگا دی گئی۔پولیس بیان میں اُن میں ظاہر ہونے والی طبّی تکلیف کا بھی ذکر ہے۔واقعے کی ویڈیو میں دِیکھا جا سکتا ہے کہ تنازع کیسے شروع ہوا۔ایک سفید فام افسر اپنے گُھٹنے سے جارج کا گلا گھونٹ رہا ہے۔اس موقعے پر جارج کہتا ہے’’ پلیز! مَیں سانس نہیں لے پارہا، مجھے مت مارو۔‘‘ حکّام نے چاروں پولیس اہل کاروں کی نشان دہی کر لی ۔ ڈیرک چاون نامی اہل کار کو گلا گھونٹنے کا ملزم قرار دیا گیا ہے اور اس کے خلاف قتل، جب کہ باقی اہل کاروں کے خلاف قتل میں معاونت کا مقدمہ درج کیا گیا۔

امریکا سُپر پاور ہے۔32کروڑ لوگ اُس مُلک میں آباد ہیں۔دِل چسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے تقریباً تمام باشندے دیگر ممالک سے آکر یہاں آباد ہوئے۔ اسپین کے کولمبس نے بارہویں صدی میں اسے دریافت کیا، جب وہ بادشاہ اور ملکہ کی جانب سے اسپین کی نو آبادیات کی تلاش کے لیے نکلا تھا۔امریکا، اسپین سے فرانس کو منتقل ہوا اور پھر برطانیہ نے اُسے اپنی نوآبادی بنالیا۔ظاہر ہے، امریکی سرزمین کے مالک تو بدلتے رہے، تاہم اس کے باشندے وہی رہے۔جارج واشنگٹن نے ایک زبردست جنگِ آزادی کے بعد برطانیہ کو شکست دے کر اسے نکال باہر کیا اور پھر 13 ریاستوں پر مشتمل امریکا بنا، جو بڑھ کر اب 52 ہوچُکی ہیں۔ 

امریکا ہمیشہ تارکینِ وطن کادیس رہا ہے اور آج بھی دنیا بھر کے لوگ نہ صرف وہاں کی شہریت اختیار کرتے ہیں، بلکہ اکثر لوگوں کی سب سے بڑی خواہش ہی وہاں آباد ہونا ہے، جس میں پاکستانی بھی پیش پیش ہیں، چاہے وہ اسے کتنا ہی برا بھلا کیوں نہ کہتے ہوں۔افریقی نسل سے تعلق رکھنے والے، امریکا کی کُل آبادی میں13 فی صد ہیں، یعنی تین کروڑ تیس لاکھ ہوئے۔یہ اُن غلاموں کی نسل سے ہیں، جنہیں افریقا سے یورپی اقوام خرید کر اپنے کاموں کی انجام دہی کے لیے لاتی تھیں۔ ظاہر ہے، یہ دوسرے، تیسرے درجے کے شہری تھے۔

جب یورپ میں غلامی قانوناً ممنوع قرار پائی، تو یہی تحریک امریکا میں بھی زور پکڑ گئی۔مارٹن لوتھر کنگ کے زمانے تک یعنی گزشتہ صدی کے وسط تک سیاہ فام باشندے تفریق کا شکار رہے، جو ملازمت سے لے کر ریسٹورنٹس میں داخل ہونے تک رائج تھی۔ 2007 ء میں پہلی مرتبہ ایک سیاہ فام، باراک اوباما امریکی صدر بنے، جو آٹھ سال تک صدر رہے۔ اس سے قبل بھی حکومت کے اہم ترین عُہدوں پر سیاہ فام افراد نظر آتے ہیں۔دوسرا سب سے اہم عُہدہ سیکریٹری آف اسٹیٹ بار ہا سیاہ فاموں کے پاس رہا۔فوج کے کئی سربراہ، چیف جسٹس سیاہ فام رہے، لیکن اس کے باوجود سیاہ فام باشندوں کی شکایات اپنی جگہ موجود رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تفریق کا مسئلہ معاشرے کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صدر اوباما کے دَور میں بھی سیاہ فام قتل ہوتے رہے۔

اُن کے زمانے میں بھی ایک سیاہ فام اسی طرح پولیس اہل کار کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھا تھا۔امریکا میں دو باتیں عام ہیں۔ایک تو شہری کو ہمیشہ اسی مُلک کے نام سے پکارا جانا، جو اس کی بنیاد ہے۔جیسے پاکستانی امریکن، چینی امریکن یا روسی اور ویت نامی امریکن۔کئی ریاستوں میں کچھ خاص زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے اور صدارتی اور دیگر امیدواروں کو اُن کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ نتائج پر ان کے بڑے فیصلہ کن اثرات مرّتب ہوتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی معاشرے کی بنیادیں کن چیزوں پر کھڑی ہیں۔

اوباما دَور اور موجودہ دَور کے ہنگاموں میں ایک بات مشترک ہے، اور وہ ہے، پولیس کی جانب سے سیاہ فام افراد کے ساتھ رنگ ونسل کی بنیاد پر ظالمانہ سلوک۔ سیاہ فاموں کا کہنا ہے کہ معمولی سے جرم پر بھی اُنھیں جان سے مار دیا جاتا ہے، جب کہ دیگر اقوام کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا اور اب بہت ہوچُکا، کوئی فیصلہ کُن قدم اُٹھانا ہوگا تاکہ سفید،سیاہ کی تفریق ختم ہوسکے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کے متعلق عمومی آبادی کی دنیا بھر میں ایک ہی سوچ ہے۔ہمارے مُلک میں بھی کئی ایسے واقعات ہوئے، جن کے ذکر سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ گاڑی روک کر معصوم بچّوں کے سامنے اُن کے والدین کو گولی مار کر ہلاک کرنے کا واقعہ تو کل ہی کی بات ہے۔ افسوس تو یہ کہ اس قتلِ عام کے ملزمان چُھوٹ بھی گئے۔ 

مزید حیرت یہ کہ اس پر لوگ خاموش رہے، لیکن امریکی عوام کو داد دینا پڑتی ہے کہ اُنہوں نے ایک سیاہ فام شہری کے لیے نہ صرف مُلک کو ہلا کر رکھ دیا، بلکہ اِتنا دبائوڈالا کہ ایک وقت تو صدر کو وائٹ ہاوس کے بنکرز میں پناہ لینی پڑی۔نہ صرف امریکا، بلکہ کینیڈا، یورپ اور برطانیہ تک میں شہریوں نے بلا تفریق رنگ و نسل جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل پر بڑے بڑے مظاہرے کر کے یک جہتی کا ثبوت دیا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی حکومت نے تشدّد کے خلاف تو سخت بیانات دیے، لیکن کسی نے اسے امریکا کے خلاف سازش قرار نہیں دیا اور شہریوں کے اس جمہوری حق کو تسلیم کیا۔یہ بھی یاد رہے، 2020 ء امریکا میں انتخابات کا سال ہے۔صدر ٹرمپ اپنی دوسری مدّت کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔سیاہ فاموں کا مسئلہ جس طرح الیکشن سے صرف پانچ ماہ قبل سامنے آیا ہے، وہ یقیناً امریکا کی دونوں بڑی پارٹیز کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ وہاں اس طرح کے معاملات پر پوائنٹ اسکورنگ نہیں کی جاتی، بلکہ اُنھیں حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

باراک اوباما کی صدارت کے آخری دنوں میں ہونے والے پُرتشدّد ہنگاموں نے ڈیموکریٹک پارٹی پر منفی اثرات مرتّب کیے تھے۔ اس پر الزام تھا کہ سیاہ فام ہونے کے باوجود، وہ اپنے ہی لوگوں پر ظلم ہوتا برداشت کر تے رہے۔ امریکا میں لوگ اپنی سخت سے سخت رائے کا اظہار کرنے کے لیے بھی آزاد ہیں۔ صدر یا اداروں کو جس طرح چاہیں، تنقید کا نشانہ بنائیں، حد تو یہ کہ ایک سیاہ فام کھلاڑی نے اولمپکس میں امریکی جھنڈے کی سرِعام توہین کی، لیکن کوئی ایکشن نہ ہوا، اسے اُس کا حق تسلیم کیا گیا۔اِس بار بھی ایک ریاست کے پولیس چیف نے برسرِ عام صدر کو خاموش رہنے کو کہا۔

دِل چسپ بات یہ ہے کہ ان ہنگاموں میں تشدّد ضرور ہوا، لیکن کوئی گولی نہیں چلی۔ اس کے باوجود کہ یہ ہنگامے چالیس شہروں میں نہ صرف کرفیو کا باعث بنے، بلکہ لوگوں نے جگہ جگہ کرفیو کی خلاف ورزی بھی کی۔ اس معاملے میں سوشل میڈیا کے منفی اور مثبت کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سوشل میڈیا پر سازشی تھیوریز گردش کرتی رہیں۔اسی طرح بہت سی ایسی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ پرانی تھیں یا پھر کسی دوسرے مُلک کی تھیں۔یہ پرانے واقعات تھے، جن میں پولیس کو سیاہ فام سے پوچھ گچھ کرتے دِکھایا گیا۔ایک ویڈیو 28 مئی کو پوسٹ کی گئی، جو لاکھوں افراد نے دیکھی، اس میں ایک پولیس اسٹیشن میں آگ لگی ہوئی ہے۔

یہ 2015ء کی ویڈیو ہے، جو چین کے شہر ٹیجن کے حادثاتی دھماکے کی ہے۔اس کے علاہ یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ ان ہنگاموں کے پیچھے روس کا ہاتھ ہے۔ درحقیقت ،سوشل میڈیا پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہت لازمی ہوگیا ہے، کیوں کہ اصل کو کہیں سے کہیں لے جاسکتا ہے اور جب امریکا جیسا ترقّی یافتہ مُلک اس سے متاثر ہوسکتا ہے، تو پھر چھوٹے ممالک کی تو بات ہی کیا۔ یہ دو دھاری تلوار ہے، جو دونوں طرف چل سکتی ہے۔

قوم پرستی کی لہر مغربی ممالک میں زوروں پر ہے۔ اس سے کم زور کمیونٹیز پر بہت زیادہ دبائو بڑھتا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ اس نیشنل ازم کے سرخیل مانے جاتے ہیں۔ مغربی دنیا میں ان کے بیانات دل آزار اور تعصّب پر مبنی کہے جاتے ہیں۔ اس مغربی قوم پرستی کا مقابلہ چین یا روس سے متوقع تھا، لیکن اُن کے لیڈر بھی قوم پرست ہیں۔شی جن پنگ اور پیوٹن بہت بڑے قوم پرست ہیں۔ یہی حال جاپان کے شنزو ایبے کا ہے۔دوسری طرف، ان دونوں ممالک کو اپنے اندرونی معاملات میں اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔چین کو ہانگ کانگ اور سنکیانگ میں مشکلات درپیش ہیں، خاص طور پر حالیہ سیکوریٹی کا بل ہانگ کانگ میں ایک مرتبہ پھر مسائل پیدا کر رہا ہے۔اسی لیے دنیا میں سیاہ فام کے قتل پر تاسّف ، دُکھ اور یک جہتی زیادہ تر یورپی ممالک ہی میں دیکھی گئی۔کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے اور سیاہ وسفید کی بنیاد پر تفریق کا براہِ راست تعلق انسانی حقوق ہی سے ہے۔ 

ظلم وزیادتی امریکا میں ہو یا کہیں اور، کسی صُورت قابلِ معافی نہیں۔کالے، گورے سب انسان ہیں اور یہی عالمی ہیومن رائیٹس چارٹر کہتا ہے، جس پر تمام ممالک نے دست خط کر رکھے ہیں اور امریکا کے لیے یہ معاملہ اِس لیے بھی بہت زیادہ سنجیدگی کا حامل ہے کہ وہ تاحال کورونا وائرس سے نبرد آزما ہے۔ وہاں عوام کی بہت بڑی تعداد وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، جب کہ پوری دنیا میں ہونے والی اموات میں بھی اس کی تعداد ایک تہائی ہے، جو ایک لاکھ سے زیادہ بنتی ہے۔ پولیس کی اس بہیمانہ کارروائی نے ایک طرف تو اس کے نظامِ انصاف کو چیلنج کیا ہے، تو دوسری طرف، اس کے شہری ایک عالمی وبا سے متاثر ہیں۔ بیماری یا وبا تو بہرحال قابو میں آجاتی ہے، لیکن اگر معاشرے میں تفریق یا نسلی تعصّب پیدا ہوجائے، تو پھر تقسیم بے قابو ہوجاتی ہے۔ 

امریکا تارکینِ وطن پر بنا مُلک ہے، اگر کوئی ایک تفریق کا معاملہ سَر اُٹھاتا ہے، تو دوسرے طبقے بھی ایسے مسائل کھڑے کرسکتے ہیں۔اسی لیے جارج فلائیڈ کو انصاف دِلانا ہی ضروری نہیں، بلکہ اُن زخموں کو مندمل کرنا بھی ضروری ہے، جو رویّوں سے پورے معاشرے کو لگتے ہیں۔ مارٹن لوتھر جیسے امن پسند، عدم تشدّد پر یقین رکھنے والے امریکیوں نے سیاہ اور سفید فاموں کی یک جہتی کا جو خواب دیکھا تھا، وہ درحقیقت امریکا کے فائونڈنگ فادرز کا خواب تھا۔

تازہ ترین