• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روایتی بجٹ کافی نہیں، عوام کو ٹھوس اقدامات چاہئیں

مُلک جب سے کورونا وائرس کی لپیٹ میں آیا ہے، مسلسل مُلکی معیشت اور غربت کا ذکر ہو رہا ہے۔وزیرِ اعظم، عمران خان کی ہر تقریر معیشت کی زبوں حالی سے شروع ہوتی ہے اور لوگوں کو غربت سے بچانے پر ختم۔ کیا ہمیں اِس اَمر پر کورونا کا شُکر گزار ہونا چاہیے کہ آخر حکومت کی اولین ترجیح اب کرپشن، سیاست، اپوزیشن سے مقابلے، بین الاقوامی اور علاقائی تنازعات سے ہٹ کر معیشت بن چُکی ہے۔اگر واقعی ایسا ہی ہے، تو یہ یقیناً انتہائی خوش آیند تبدیلی ہے۔ کورونا نے کیا کیا اور کیا کرسکتا ہے؟ ابھی تو معاملات اندازوں اور وارننگ کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔

ترقّی یافتہ ممالک اور مالیاتی اداروں نے کُھل کر بتا دیا کہ اس سے اُن کی معیشت پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے، لیکن ہمارے ہاں جیسے اندازے لگائے جاتے ہیں، جس قسم کی پلاننگ اور گورنینس ہے، خاص طور پر مالیاتی معاملات میں، اُس میں یوٹرن ایک محبوب مشغلہ ہے۔ اب اسے اعلیٰ لیڈر شپ کی خصوصیت کی سند بھی حاصل ہوچُکی ہے۔اِس سال فروری تک، جب مُلک میں کورونا کا نام ونشان بھی نہ تھا، مُلکی معیشت کی شرحِ نمو 2.5 فی صد کے لگ بھگ تھی۔ ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ وہ شرحِ نمو ہے، جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی پیداواری صلاحیت میں کسی بڑے اضافے کی امید کی جاسکتی ہے۔ اب معیشت اِس حد تک گر چُکی ہے، تو پھر ایسی صُورت میں بجٹ سے کیا امیدیں وابستہ کی جائیں؟شاید زیادہ خوشی ممکن نہ ہو اور اس کی وجوہ صرف کورونا کے اثرات نہیں، بلکہ اس کم زور معیشت میں تلاش کیے جاسکتے ہیں، جو گزشتہ دو سال سے صرف اُمید پر چل رہی ہے۔

اب یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں کہ ہم ایک غریب مُلک اور غریب قوم ہیں۔وزیرِ اعظم، عمران خان اِس بات کا اعلان گزشتہ تین مہینوں میں بار بار اپنے قومی خطابات،تقاریر اور پریس کانفرنسز میں کرتے رہے۔اُن کے کہنا تھا کہ’’ ہم تو اِس قابل بھی نہیں کہ کورونا سے اپنے عوام کو محفوظ رکھ سکیں۔سو، جو خود کو حفاظتی تدابیر سے بچا سکتا ہے، بچا لے۔‘‘وزیرِ اعظم نے بار بار زور دے کر کہا کہ’’ ہم دنیا کے دیگر ممالک کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ہمارے اور اُن کے حالات میں بہت فرق ہے۔ ہمارے چالیس فی صد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور ہفتے دس دن کا لاک ڈائون بھی قوم کو بھوک سے مار سکتا ہے۔‘‘غالباً اِس سے بہتر معیشت کی حقیقی صُورتِ حال کوئی اور پیش نہیں کرسکتا، کیوں کہ وزیرِ اعظم دیانت داری، صاف گوئی اور نیک نیّتی کی شہرت رکھتے ہیں، تو اُن کی سچائی کو داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ آخر کسی نے تو قوم کو آئینہ دِکھایا۔ 

حالاں کہ اس سچائی کو ہضم کرنا بہت تکلیف دہ ہے، کیوں کہ اِس سے قبل حکومت، میڈیا اور قومی رہنما عوام کو مسلسل یقین دلاتے رہے کہ وہ دنیا کی طاقت وَر ترین اقوام میں سے ہیں۔ اس کے ٹیلنٹ اور محنت کا کوئی ثانی ہی نہیں اور یہ کہ وہ وقت قریب ہے، جب ہم دنیا کی ترقّی یافتہ قوموں کو بہت پیچھے چھوڑ دیں گے۔ ایشین ٹائیگرز تو کیا، لوگ یورپ سے نوکریاں تلاش کرنے یہاں آئیں گے۔اس ضمن میں کبھی چین، کبھی ملائیشیا،کبھی برطانیہ، تو کبھی تُرکی کے ماڈل پیش کیے جاتے رہے اور یہ کچھ زیادہ پرانی بات نہیں، صرف فروری تک کے مشیرِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر کے دعوے دیکھ لیں۔ اِس بات کا بار بار اعادہ کیا گیا کہ مشکل دَور ختم ہوچُکا اور ترقّی کا زمانہ شروع ہونے کو ہے۔ تو پھر کیا ساری خرابی کورونا نے کی ہے؟سب جانتے ہیں کہ مُلک میں لاک ڈائون نام کی کوئی چیز تو ہوئی ہی نہیں، تو پھر ایسا کیا ہوا کہ معیشت کسی بڑے سانحے یا جھٹکے سے گزرے بغیر صرف دو مہینوں میں تباہ حالی کے قریب پہنچ گئی؟

اِس سوال کے جواب سے قبل مُلکی معیشت کے مثبت اور روشن پہلوؤں کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیرِ اعظم، عمران خان کی حکومت نے بڑی کام یابی سے دوسالوں میں مختلف ممالک اور مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کیا تاکہ زبوں حال معیشت کو ٹھیک کیا جاسکے۔اسد عُمر سے، جو پی ٹی آئی حکومت کے پہلے وزیرِ خزانہ تھے، لے کر حفیظ شیخ اور اُن کی معاشی ٹیم تک کا سب سے بڑا شکوہ یہ تھا کہ ماضی کی حکومتیں اُنھیں تباہ حال معیشت دے گئیں۔اِس ضمن میں اُس کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سب سے اہم قرار دیا جاتا ہے، جو ساری معاشی مشکلات کی جڑ تھا۔ اب یہ گھٹ کر تین فی صد سے بھی کم ہوچُکا ہے، جو ایک بڑی کام یابی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی کی پی پی پی اور نون لیگ حکومتوں نے لُوٹ مار مچا رکھی تھی، جس کے نتیجے میں مُلک اربوں ڈالرز کا مقروض ہوا۔

بلاضرورت ہائی ویز اور اورنج لائن جیسے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے گئے۔پی ٹی آئی کے بقول تمام شعبے تباہ کردئیے گئے اور اب نہ جانے اُن کی بحالی میں کتنا عرصہ لگے لگا۔اس کے برعکس، نون لیگ کا دعویٰ ہے کہ وہ مُلک کو 5.8 کی ترقّی کی شرح پر چھوڑ کر گئے تھے اور معاشی حالات بہت بہتر تھے۔ ترقّی کی شرح اس سال گر کر2.6 ہوئی، فروری میں دوبارہ ری سیٹ کی گئی(یعنی کورونا سے قبل )، جب کہ یہ حقیقی طور پر 1.9 فی صد ہے۔پہلے اور دوسرے فگر تقریباً وہی ہیں، جو مختلف بین الاقوامی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقّیاتی بینک بتاتے رہے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیرِ اعظم اور اُن کی اقتصادی ٹیم بہت محنت کے بعد آئی ایم ایف سے ساڑھے چھے ارب ڈالرز کا قرض حاصل کرنے میں کام یاب رہی۔

اب حکومت نے کورونا کے بعد اس کی اقساط بھی ایک سال کے لیے مؤخر کروا لیں۔اس کے علاوہ، چین سے بڑے پیمانے پر امداد ملی، جس کی تفصیل تو سامنے نہیں آئی، لیکن اندازہ یہی ہے کہ وہ اربوں ڈالرز پر مشتمل ہے۔سعودی عرب، یو اے ای،قطر، یورپی یونین، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقّیاتی بینک سمیت تمام بڑے مالیاتی اداروں نے پاکستان کو امداد دینے کے وعدے کیے ہیں۔ تباہ حال معیشت میں، جس کا ذکر وزراء بار بار کرتے رہے ہیں، یہ ایک بڑی کام یابی ہے۔ اس میں آئی ایم ایف کے قرضے کا کردار زیادہ نمایاں ہے، کیوں کہ اسی قرضے نے یہ گارنٹی فراہم کی کہ پاکستان قرض واپس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی معیشت میں اُبھرنے کا دَم ہے۔

موجودہ حکومت برآمدات بڑھانے میں تو کام یاب نہیں ہوئی، لیکن درآمدات ضرور کم کردیں، جس کی وجہ سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی۔پیسا بچا، لیکن درآمدات گھٹنے کا ایک براہِ راست اثر یہ بھی ہوا کہ مُلک میں کارخانے نہیں لگے،کمرشل ایکٹیویٹی کم ہوئی اور صرف کنزیومر اکانومی چلتی رہی۔ یہ کچھ کچھ شوکت عزیر دَور کا ماڈل ہے۔ نیز، مشیرِ خزانہ نے یہ خوش خبری بھی سُنائی کہ امسال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، جب کہ بیرونی سرمایہ کاری میں سو فی صد اضافہ ہوگا۔ جس سیکٹر میں مُلکی معیشت کا چھکّا لگا، وہ تیل کی قیمتوں میں زبردست کمی تھی۔دو ماہ قبل یہ صُورت ہوگئی تھی کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل تو تھا، لیکن خریدار موجود نہیں تھے۔پاکستان کی درآمدات کا سب سے بڑا بِل تیل ہی کی مَد میں جاتا ہے، جس کی درآمد پر تقریباً 14 ارب ڈالرز خرچ ہوتے ہیں۔تیل کی قیمتیں گرنے سے یہ بِل گھٹ کر چھے ارب ڈالرز کے لگ بھگ آگیا۔ 

کل جو مُلک تیل دینے میں نخرے کر رہے تھے، وہ سودوں کے لیے منّتیں کرنے لگے۔آٹھ ارب ڈالرز کی یہ بچت مُلکی معیشت کے لیے کسی لاٹری سے کم نہیں۔تاہم، پاکستان کا ایک پیچیدہ معاملہ بھی ہے۔تیل پیدا کرنے والوں کی آمدنی گھٹی، تو اُنہوں نے بڑے منصوبے بند کرنے شروع کردیے۔کٹوتیاں کیں، ٹیکسز بڑھائے، لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ بیرونِ ممالک سے آئے ملازمین کو فارغ کرنا شروع کردیا۔ہمارے نوّے لاکھ شہری بیرونِ مُلک مقیم ہیں، جن میں سے ساٹھ فی صد سے زیادہ ان تیل پیدا کرنے والے ممالک میں ملازمت کرتے ہیں۔وہ مُلک کو زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں اور اُن کی بھجوائی گئی رقوم سے اُن کے گھروں کے چولھے جلتے ہیں۔ 

اب اس غیر مُلکی زرِ مبادلہ کا کیا ہوگا؟ اس کی کمی کا دبائو شروع ہوچُکا ہے۔ یاد رہے، ان تارکینِ وطن کا بھیجا جانے والا زرِ مبادلہ کُل مُلکی برآمدات سے زیادہ ہے۔یہ ملازمتوں سے فارغ ہونے والے پاکستانی واپس آئیں گے، جن میں زیادہ تر غریب، مزدور اور نان اسکلڈ ہیں، اُنھیں مُلک میں کیسے روزگار فراہم کیا جائے گا؟ کہا جارہا ہے کہ غربت اور ے روزگاری کورونا سے نہیں، بلکہ اِس بحران سے بڑھے گی۔ کیا سمندر پار پاکستانیوں کی وزرات نے کوئی منصوبہ بنایا ہے یا وہ صرف پاکستانیوں کو وطن واپس لانے ہی پر خوش ہو رہی ہے۔

ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم ہی مُلکی معیشت کی اصل جان ہے۔لوگ ٹیکس دیتے ہیں، تو مُلک چلتا ہے،لیکن پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جہاں سب سے کم براہِ راست ٹیکس دیا جاتا ہے۔البتہ اِن ڈائریکٹ ٹیکس تو ہر پاکستانی ہی ادا کرتا ہے۔تاجر کورونا میں دُکانیں اور کاروبار کھلوانے کے لیے تو دھمکیاں دیتے ہیں، لیکن یہ غور نہیں کرتے کہ اُن کی جانب سے ٹیکس نہ دینے نے مُلک کو کس دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ایک بھیک مانگنے کا سلسلہ ہے، جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ٹیکس نہ دینے کے ایسے ایسے جواز پیش کیے جاتے ہیں کہ سُن کر حیرانی ہوتی ہے۔بہر حال اِس مرتبہ ٹیکسز کا ہدف پانچ ہزار ارب سے زیادہ رکھا گیا تھا، لیکن حکومت اس ٹارگٹ کو رواں مالی سال میں پورا نہ کرسکی۔

وہ فروری تک اس بات کا عندیہ دے چُکی تھی کہ یہ چار ہزار ارب روپے ہوگا، تاہم آئی ایم ایف کا اصرار تھا کہ یہ پانچ ہزار ارب ہو۔اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ہزار ارب کا شارٹ فال تو اگلے سال کے ٹیکس ٹارگٹ میں کیری فارورڈ ہو گا۔ وزیرِ اعظم، عمران خان اپنی تقاریر میں امیر اور ترقّی یافتہ مما لک سے درخواست کرتے رہے ہیں کہ ان ممالک کی امداد کے بغیر اپنے مُلک کو چلانا ممکن نہیں۔وہ ہربار قرضوں کی معافی پر زور دیتے ہیں۔واضح رہے، دنیا بھر میں سب سے زیادہ قرضے دینے والا مُلک چین ہے۔آئی ایم ایف میں اس کا حصّہ ساٹھ فی صد ہے، جب کہ وہ اپنے عظیم الشّان منصوبے، بیلٹ اینڈ روڈ کے لیے اربوں ڈالرز دے چُکا ہے۔پاکستان کو بھی اِس ضمن میں ساٹھ ارب ڈالرز ملے۔اِس کے علاوہ بھی اس نے بہت سے مُلکی منصوبوں میں قرضے دیے ہیں۔چین ہمارا سب سے قریب ترین دوست اور بھائی ہے۔ ہم اس دوستی پر فخر کرتے ہیں۔یقیناً پاک، چین معاشی ٹیمز ان قرضوں کی معافی پر بات چیت کر رہی ہوں گی، کیوں کہ ان کی معافی ہماری معیشت کو بہت بڑا سہارا دے گی۔ دونوں ممالک کے قریبی روابط دیکھ کر ایسا ہونا ممکن ہے۔یہ ضرور ہے کہ اتنے غیر معمولی قرضے مؤخر یا معاف کرنے پر چینی قیادت کو اپنے عوام کو اس کا جواز پیش کرنا پڑے گا۔

پھر ایک اور بات بھی غور طلب ہے کہ جن مُمالک یا طاقتوں سے پاکستانی حکومت نے قرضے لیے، اُنہیں ہمارے مُلک میں اہلِ دانش، سیاست دان، مذہبی رہنما، اسکالرز اور عوام سازشی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ ممالک اور ادارے ہمارے دشمن ہیں اور وہ ہمیں تباہ و برباد کرنے کی سازش کرتے ہیں۔کورونا کے دور میں ہر دوسرے شہری کی زبان پر یہ بات ہے کہ’’ یہ کوئی بیماری ویماری نہیں، بلکہ سازش ہے۔‘‘ حکومت کی طرف سے اس طرح کے منفی پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے ہمیں شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ کیا دنیا کو پتا نہیں چلتا ہوگا کہ جو مُلک اُن سے قرضے، بلکہ غربت کے نام پر بھیک مانگ رہا ہے، جس کا وزیرِ اعظم ہر وقت غریبی اور بھوک کا رونا روتا ہو، اُس میں اُن کے خلاف کس نوعیت کی فضا ہے۔ پھر یہ کہ ہمارے ہاں عوام کی غربت اور بھوک کا ذکر تو ہے، لیکن اس کے تدارک کے لیے سنجیدہ اقدامات نظر نہیں آتے۔ایسے میں کون سا مُلک ہمارے قرضے کیوں معاف کرے گا؟ جب چین نے 1979 ء میں ترقّی کرنے کا فیصلہ کیا، تو وہ ساری دنیا بھول کر اگلے25 سال اس کام میں مگن رہا، یعنی ایک پوری نسل اس مشن میں کھپا دی۔کیا ہماری حکومت اور عوام میں بھی اس طرح کی سوچ اور عزم کی جھلک نظر آتی ہے؟

حالیہ بجٹ اِن حالات میں آیا، جب گزشتہ سال کا شاید ہی کوئی ہدف حاصل کیا جا سکا ہو۔ پی ٹی آئی لاکھوں مکانات کی تعمیر اور کروڑوں افراد کو روزگار فراہمی کی شروعات بھی نہ کرسکی۔پھر کورونا کی ناگہانی آفت نے مُلک کو جکڑ لیا اور رہی سہی کسر پوری کردی۔اِس بجٹ سے ہمیں صرف عوام کو ریلیف ہی نہیں دینا، بلکہ قوم کے سامنے آیندہ کا لائحۂ عمل بھی رکھنا ہے کہ ہم کس طرف، کس طرح بڑھیں گے۔کیا قرضے اور امداد قوم کی قسمت رہے گی یا ترقّی اور بہتر زندگی ان کا مقدر بنے گی۔ ابھی بھی اُمید کی سب سے بڑی کرن وہ ساٹھ فی صد نوجوان آبادی ہے، جسے طوفانوں سے لڑنے کا عزم دیا جاسکتا ہے۔لیکن ماضی میں رہ کر رونے پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، بلکہ مستقبل کی امیدیں جگانے ہی سے منزل حاصل ہوگی۔

وزیرِاعظم، عمران خان اور اُن کی ٹیم نے اقتدار میں آنے کے لیے قوم کو بہت سے سہانے خواب دِکھائے تھے۔لوگوں نے اُن پر غیرمعمولی بھروسا کیا۔اُن کے وعدوں اور امیدوں پر عوام نے گزشہ دو سال سخت آزمائش میں گزارے۔ ریکارڈ منہگائی برداشت کی، وعدے ٹوٹتے اور ٹلتے دیکھے۔ترقّی سے تنزّلی کا سفر طے کیا۔ غربت کے اندھیرے اور بے روز گاری کو بھگتا اور اب اُن کے کہنے پر کورونا کے ساتھ زندگی گزارنے پر بھی رضامند ہیں، لیکن اِس کے بدلے اُنہیں کیا ملے گا، دیکھنا ہوگا کہ یہ بجٹ بھی صرف ایک سال کی روایتی کہانی ثابت ہوگی یا اس کے نفاذ میں آنے والے خوش حالی کے دَور کی بھی کوئی جھلک دکھائی دے۔

تازہ ترین