• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جعلی ڈگری بنوا کر عوامی نمائندے بن جانے والوں کے جیل جانے کا سلسلہ تو جاری رہتا نظر آ رہا ہے۔ گویا پاکستان کو خاندانی جمہوریت، کرپشن کلچر، بدترین طرز حکومت اور عوامی بے بسی میں جکڑنے والا سٹیٹس کو (جس کا لفظی مطلب تو ”جامد صورتحال“ ہے پاکستان کے تناظر میں یہ جاری نظامِ بد ہے) بالآخر چٹخ گیا۔ پانچ سال تک اس کی انتہائی شکل کے تسلط کو تجزیہ نگاروں نے ”بدترین جمہوریت“ قرار دیا۔ اب جو انتخابی عمل میں دو نمبر سیاستدانوں پر آئینی چیک کا ناقابل یقین سلسلہ شروع ہوا ہے، کیا اس کے نتیجے میں مطلوب معیار کے پارلیمنٹرین کی ایک بڑی کھپ پاکستان کو نصیب ہو جائے گی؟ جو ملک کو فقط آئین و قانون کے مطابق ہی چلانے کی صلاحیت و جذبے کی حامل ہو۔ یوں وہ نئی سیاسی قوتیں تشکیل پانے کا عمل شروع ہو سکے گا جو پاکستان کو پاکستان بنانے کے لئے 6 عشروں سے درکار ہے۔ کیا ریاست میں ایسے شہری ہیں جو حقیقی جمہوری نظام بنانے اور چلانے کی سکت رکھتے ہوں؟ پاکستانی سیاست کو کینسر زدہ کرنے والی چٹختے اسٹیٹس کو کی قوتوں کے نزدیک ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ یہ ناقابل عمل اور آئیڈیلزم ہے۔ وہ یہ تبصرہ بھی کر سکتے ہیں کہ اٹھائے گئے سوالات غیر حقیقت پسندانہ سوچ کے عکاس اور عملیت سے متصادم ہیں۔ ایک دوسرے بڑے طبقے کے نزدیک متذکرہ سوالات کا جواب ہاں ہاں ہے، یہ طبقہ وہ ہے جو تبدیلی کی تڑپ رکھتا ہے اور اس کے برپا ہونے پر یقین بھی۔ اسی یقین محکم سے ملکی سیاست کا اذیت ناک منظر تبدیل ہوا چاہتا ہے۔ اب جبکہ انتخابی عمل کے ذریعے ملک آئین و قانون کے نفاذ کی راہ پر چل نکلا ہے، جن ریٹرننگ افسروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں سے عجیب و غریب سوالات کر کے خود ہی عدالت بن کر بڑے بڑے فیصلے بھی صادر کر ڈالے، انہوں نے یا تو جان بوجھ کر پہلی مرتبہ ”الیکشن بمطابق آئین“ کے عمل کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے یا ان بیچاروں کی سکت و صلاحیت ہی اتنی ہے، جو یقینا بیڈ گورننس کی علامتوں میں سے ایک ہے۔میٹرک اور ایف اے کے اسلامیات کے کورس کے جو جو سوال پوچھ کر کچھ ریٹرننگ افسروں نے اپنی من مانی تشریح سے بڑے بڑے فیصلے صادر کئے، اس سے تو ایسا لگا کہ یہ ریٹرننگ افسر جیسے کوئی آئین کی انتخابی امیدوار کی شرائط کی آرٹیکلز کی ان شقوں کو بھی متنازع بنانے پر مامور ہیں جو بڑی واضح ہیں۔ ایک ممتاز کالم نویس کے کالم کے مندرجات کا ریٹرننگ افسر نے من مانا مطلب نکال کر انہیں امیدواری کے لئے نااہل قرار دے دیا۔ یقینا یہ حرکت پورے میڈیا کو بھڑکانے اور سکروٹنی کو بے اعتبار بنانے کیلئے کی گئی۔ مثلاً امیدوار کا ”امین“ ہونا۔ جس عوامی نمائندے کو خزانہ اور بجٹ استعمال کرنے کا اختیار ہے، اس نے اس میں کرپشن کی اور جس منتخب نمائندے کے پاس انتظامی اختیارات ہیں، اس نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا وہ ”امین“ نہیں ہو گا بلکہ خائن ہے۔ واضح رہے کہ آرٹیکلز 62،63 پارلیمنٹ کے منظور کئے گئے متفقہ آئین پاکستان کا حصہ ہیں اسلئے اسکی تشریح و توضیح کوئی اپنے ہاتھ میں نہ لے۔ آئین کے حوالے سے یہ اختیار صرف سپریم کورٹ کا ہے اور اسکی اتنی استعداد ہے کہ وہ اس کی تشریح کر دے۔ انتباہ کیا جاتا ہے کہ سیاستدان، صحافی اور دانشور آئین کی آرٹیکلز کو متنازع نہ بنائیں خصوصاً وہ جن کا اطلاق ہو رہا ہے وگرنہ آئین کی ہر ہر شق کو متنازع بنایا جا سکے گا جو تباہ کن ہو گا۔ بعض ریٹرننگ افسروں کی کارکردگی ایک مذاق اور سوالیہ نشان بننے کے بعد ہائیکورٹ کی یہ ہدایت کہ ”ریٹرننگ افسر“ درخواست دہندگان سے غیرمتعلقہ سوالات کر کے اپنی حدود سے تجاوز کرنے سے اجتناب کریں“ ریٹرننگ افسروں کے رنگ میں بھنگ ڈالنے والے رویے کو کنٹرول کرنے میں معاون ہوگی۔ شروع ہونیوالے غیر روایتی لیکن آئینی انتخابی عمل کے ناقدین کی سطحی دلیل اسکے سوا کچھ نہیں کہ ”منظر پر موجود سیاستدان بہت اہم ہیں۔ ان ہی سے جمہوریت فروغ پائیگی۔ بس انکا جم غفیر ہی ایک من مانے اور سخت گیر ڈکٹیٹر سے کہیں زیادہ ملک کیلئے مفید ہے لہٰذا ان ہی پر اکتفا کیا جائے۔ ان کی راہ میں کوئی روڑے نہ اٹکائے جائیں، یہ ٹیکس چور، قرض خور یا جعلساز بھی ہیں تو جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے لئے ان ہی پر گزرا کرنا پڑے گا۔ “ قوم کو اس راہ پر لگانے والے ناقدین پر اس کے سوا اور کیا تجزیہ ہو سکتا ہے کہ یہ یا تو اپنی چھوٹی چھوٹی اغراض کے مارے ہیں یا پھر ان کے محدود ذہن میں تبدیلی و تغیر کا کوئی نقش بن ہی نہیں پاتا۔ عوام بھی اب ان کے اس ابلاغِ مسلسل کی حقیقت کو سمجھ رہے ہیں اور وہ بیدار ہو کر تیزی سے ایک بڑی تبدیلی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان نے نفاذ آئین و قانون کی طرف جو کروٹ لی ہے اور عوام کی سٹیٹس کو سے نفرت کا گراف مسلسل بڑھ رہا ہے، تبدیلی کا یہ عمل اب رک سکے۔ اصل مرحلہ تو تشکیل پارلیمنٹ اور حکومت کے بعد ہو گا، جب انتخابی عذر داریوں اور ایک عوامی احتساب کے عمل کے نتیجے میں منتخب ہونے والے اراکین پارلیمنٹ کے ٹیکس چوری، قرض خوری اور مختلف النوع کرپشن کے حقائق منظر عام پر آنے کے بعد آئین و قانون حرکت میں آئیں گے۔ اللہ کرے کہ یہ سلسلہ محدود ہی ہو اور پارلیمنٹ میں زیادہ سے زیادہ معیاری اراکین پہنچیں لیکن الیکشن کمیشن کے پاس بہت محدود وقت کے باعث یہ ممکن ہے کہ اب بھی بہت بڑے بڑے ٹیکس چور، قرض خور اور سکینڈل زدہ انتخابی امیدوار بننے اور حسب ِ روایت انتخاب جیتنے میں بھی کامیاب ہو جائیں ۔ اگلے پانچ سالوں میں ان کے اصل ریکارڈ تک پہنچ، انہیں منظر عام پر لانے اور قانونی و آئینی کارروائی کا سلسلہ اِن شاء اللہ جاری و ساری رہے گا اور آئین کے مطابق ضمنی انتخابات کا بھی ۔ اس لئے کہ عوام کھرب اور ارب پتیوں کے لائف سٹائل میں رہنے والے سیاسی رہنماؤں کی قبل از انتخاب ٹیکس، قرضوں اور اثاثوں کی پیش کی گئی تفصیلات سے قطعی مطمئن نہیں بلکہ یہ پیش کیا گیا ناقابل یقین اور مضحکہ خیز ریکارڈ گلی محلے میں ان کے زیر بحث اربوں کھربوں کے اثاثوں، لائف سٹائل اور لوٹ مار کی تفصیلات سے متضاد ہے۔ ٹیکس چوری اور بھاری بھرکم اثاثوں کے ثبوت غائب رکھنے کی مکاری و فنکاری کو سمجھنے کا عوامی شعور اب بہت بلند درجے پر پہنچ گیا ہے۔ یہی شعور سیاست کے لبادے میں بڑے بڑے قومی مجرموں کو بے نقاب کر کے احتساب کے دائرے میں دھکیلے گا۔ ایک خاص طبقہ جو اپنی جائز کمائی سے قابل اطمینان بخش زندگی گزار رہا ہے، وہ اپنی بیداری کے باعث بے چین ہے کہ ہمارے ملک کا کیا حال کر دیا گیا ہے۔ اپنی محنت، صلاحیت اور حب الوطنی پر اکتفا کرنے والا یہ نیم خوشحال طبقہ نکمّے حکمرانوں کی لوٹ مار کو اپنے وطن اور آئندہ نسل کے لئے تباہ کن سمجھتا ہے۔ اپنی اغراض کی قید میں قید خاندانی جمہوریت کے پجاری ٹیکس گزار حلال خور طبقے پر جتنا چاہے طنز و تشنیع کر لیں، مطلوبہ تبدیلی و تغیر کے شگوفے اس طبقے سے پھوٹیں گے۔ آئیں! پاکستان کے غرباء کو بیدار کرتے ہوئے یہ خوشخبری سنا دیں کہ عوام دشمن شیطانی نظام چٹخ گیا ہے ۔ آنے والے نصف عشرے میں اس میں بڑی بڑی دراڑیں پڑنے کو ہیں، پھر یہ ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان پر صبح صادق کا سورج طلوع ہو کر رہے گا۔ ہماری نئی نسل اس پر اتنا ہی ناز کرے گی جتنا ہم اس کی حالت زار پر بے چین اور شرمندہ ہیں۔
تازہ ترین