• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس بات سے تو میں بالکل اتفاق کرتا ہوں کہ ایازا میر بیچارے خواہ مخواہ 62/63 کی زد میں آ گئے۔ الطاف بھائی کی اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ پارلیمینٹ اور عدلیہ نظریہ پاکستان کی وضاحت کر دیں تاکہ مسئلہ ختم ہو۔ ایسا نہ ہوکہ ہم پھر سے ایک ایسی بحث میں پڑ جائیں گے جس کا نتیجہ انتشار کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا ۔ ہمار ے تاریخ نویس بھی اس حوالے سے متضاد رائے رکھتے ہیں جبھی تو ایک خیال ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی ”براعظم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ“ اور دوسرا نظریہ کے کے عزیز کی ”مرڈر آف ہسٹری“ میں ملتا ہے۔ بقول کے کے عزیز کے ہم نے ایک خاص نظریئے کے پھیلاؤ کے لئے تاریخی حقائق مسخ کئے اور اس کی وجہ سے جو غلط نظریات کا پرچار ہوا اس کا فائدہ ضیا الحق جیسے لوگوں نے اٹھایا اور پھر یہی ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح کے لوگ اس کے سائے تلے پنپ رہے ہیں۔ ہمیں ہر صورت میں استدلالی سوچ رکھنے کی ضرورت ہے جو اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ہر دو نظریات کا بغور مطالعہ کریں اور پھر کسی سوچ پر پہنچیں۔
خیر بات ہو رہی تھی 62/63 اور اس کی تلوار تلے آئے سیاست دانوں کی۔بقول ہمارے ایک دوست صاحب کے ”مسرت شاہین تو امتحان پاس کر کے سرخرو ہو گئی۔ ان کی پشتو فلموں میں جو اثاثے انہوں نے بے بہا دکھائے وہ تو کسی کو نظر نہ آئے لیکن ایازا میر جیسے لوگ مارے گئے“۔ مسرت شاہین کے نظریہ (شاید انہیں اس کی تعریف بھی معلوم نہ ہو) نے تو فل مارکس حاصل کر لئے لیکن ایاز امیر فیل ہو گئے۔ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو نامعلوم سیاسی جماعتیں انجمن، لیلیٰ، وینا ملک اور ریشم کو بھی میدان میں اتارنے کے پلان بنا لیں۔ اگر وہ اب درخواستیں جمع کرانے میں لیٹ بھی ہو گئیں تو کوئی حرج نہیں آئندہ انہیں سینٹر بھی منتخب کرایا جا سکتا ہے کیونکہ” اثاثے تو ان کے بھی ڈیکلئرڈ“ ہی ہیں۔ اثاثوں کے ساتھ ساتھ (ن) لیگ کے مرکزی رہنماؤں جناب شہباز شریف اور نواز شریف صاحب کے کاغذات پر بھی سوال اٹھائے گئے لیکن خود نیب ہی نے اپنا بیان واپس لے لیا وگرنہ اس بارے میں بھی مسائل پیدا ہو سکتے تھے۔ لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ 62/63 کی روشنی میں کیا سابقہ حکمرانوں سے ان کے دور میں کئے گئے کارناموں کے حوالے سے بھی سوال نہیں کئے جانے چاہئیں؟ مثلاً یہ کہ پنجاب حکومت نے لیپ ٹاپ سکیم شروع کی تو یہ لیپ ٹاپ الیکشن مہم کے لئے کیوں استعمال کئے گئے؟ یہ لیپ ٹاپ پنجاب حکومت کی بجائے نواز شریف صاحب کیوں تقسیم کرتے رہے؟ انہیں کس نے اس کی اجازت دی کہ وہ ہماری، آپ کے ٹیکس کی رقم کو ذاتی تشہیر کے لئے استعمال کریں؟
سستی روٹی سکیم میں جو اربوں روپے ضائع کئے گئے اس کا جواب کون دے گا؟ کیا اس روٹی سکیم میں رقم خود نواز شریف صاحب یا شہباز شریف صاحب نے اپنی جیب سے ادا کی تھی؟ یہ ایک مکمل ناکام منصوبہ تھا اور اس بارے میں بھی پوچھ گچھ ہونی چاہئے۔ یہ رقم بھی ہم جیسے لوگوں کی جیب سے ادا کی گئی۔ میٹرو بس ایسے منصوبے پر اربوں روپے خرچ کر کے کیا اس صوبے کے غریب عوام کا کوئی بھلا ہوا؟ کیا انہیں پینے کا صاف پانی مہیا ہونے لگا؟ پھر اس منصوبے کو بھی آئندہ کی الیکشن مہم کے لئے کیوں استعمال کیا گیا؟ یہ بھی سراسر خیانت ہے۔ میں ان تمام مہمات کو خیانت کے زمرے میں شمار کرتا ہوں اس لئے کہ ان حکمرانوں کے پاس میرے ٹیکس کی ادا کی ہوئی یہ رقم امانت کے طور پر پڑی تھی میں اس رقم سے اپنے لوگوں کے لئے صاف پانی، پڑھنے کے لئے بہترین سکول،مہنگائی میں کمی، ماحول کی بہتری،مہنگائی میں کمی ایسی چیزیں مانگتا ہوں۔ چند دانش سکول بنا کر اگر پرائمری ایجوکیشن کے فنڈز میں سے رقم وہاں خرچ کر دی جائے تو اسے میں خیانت ہی کہوں گا۔ کیوں نہ اس بنیاد پر سابقہ حکمرانوں کو الیکشن لڑنے کے لئے نااہل قرار دے دیا جائے؟
اور اس تمام میں اگر عامر میر کی ”جنگ اخبار“ میں چھپی سٹوری کو بھی شامل کر لیں کہ شریف برادران کی سکیورٹی کے نام پر ماہانہ 2 کروڑ روپے خرچ کئے جا رہے ہیں عامر میر کے بقول شہباز شریف اور نواز شریف کو وی وی آئی پی سکیورٹی فراہم کرنے کے لئے پنجاب ایلیٹ فورس کے 317 اہلکار اب بھی تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور پولیس سکیورٹی ڈویژن، پنجاب کانسٹیبلری اور لاہور ڈسٹرکٹ پولیس کے 444 جوان رائے ونڈ، ماڈل ٹاؤن اور گلبرگ میں ان کی رہائش گاہوں پر حفاظی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا استحقاق صرف 12 اور 8 پولیس اہلکاروں کا ہے تو یہ جو اضافی اخراجات ہماری جیبوں سے ادا کئے جا رہے ہیں کیوں نہ شریف برادران سے اس کا حساب بھی لیا جائے۔ یہ جو پنجاب پولیس کی روزانہ 54 گاڑیاں سرکاری خرچ سے پٹرول ڈلوا کر ان کی سکیورٹی کا کام سرانجام دے رہی ہیں یہ کہاں کی شرافت ہے؟ اسے بھی کیا خیانت کے زمرے میں شمار نہیں کیا جانا چاہئے؟ اور اب احمد جاوید صاحب کی نظم ”صدر بش کا خطبہ“ سے چند لائنیں:
مسلمانو! تم ناشکری کی بساند سے بھر چکے ہو
تمہاری دعاؤں کے غبار آلود خیمے
میرے صحرا پر ثبت ہیں
تمہاری خیالی کشتیاں
میرے دریا پر چسپاں ہیں
وہ ہوائیں میری ہیں
جنہیں برقہ کر کے
تم حق کا جھنڈا لہراتے ہو
وہ ستارے میرے ہیں
جنہیں ورغلا کر
تم تقدیر کا زائچہ بناتے ہو
طیش کا خاردار شعلہ بہت دراز قد ہے
پھر بھی میں نے تحمل کی چادر چھوٹی نہ پڑنے دی
مگر تمہاری سرکشی
جہنم کی ترائی میں واقع بانس کا جنگل ہے
جسے زرد رو خطیب سیراب کرتے ہیں
بہت ہو چکا، بس!
اب میں اس منحوس باڑھ پر روک لگاؤں گا
اس سے پہلے کہ تمہاری نمک حرامی
میرے دستِ رزاق کو کہنی تک مفلوج کر دے
میں تمہاری تھوتھنیوں پر بھوک کے توبڑے کس دوں گا
تازہ ترین