• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس لاک ڈاون میں سب سے پہلے یہ سوال اٹھا تھا کہ ڈیلی ویجز (روزانہ کی اجرت) پہ کام کرنے والے مزدوروں کا کیا بنے گا؟ اور پھر حساس دل رکھنے والے سرگرم ہوگئے ۔ جس سے جو بن پڑا وہ کیا، پھر سیاسی جماعتیں بھی اس کار خیر میں شامل ہوئیں۔ حکومت بھی احساس پروگرام کے ساتھ آگے بڑھی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک نہیں دو نہیں سینکڑوں کی تعداد میں فلاحی تنظیمیں میدان میں آگئیں کہ کہیں کوئی بھوکا نا رہ جائے۔ رمضان میں اس کام اور تیزی آئی۔ اور حسب توفیق عطیات کا سلسلہ جاری رہا۔ لیکن دوسری طرف ناشکری کا یہ عالم ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود لوگ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ کہاں تقسیم ہوئی؟ حکومت نے کس کو دیا؟ ہماری طرف تو کوئی حکومتی نمائندہ نہیں آیا؟ جبکہ "غیر سرکاری نمائندے امداد دے چکے تھے "۔ اتنے شکوے سننے کے بعد ایک واقعہ یاد آگیا اور ایک سوچ نے بےچین کردیا کہ اللہ کی ایک مخلوق جو بے زباں بھی ہے؟ آخر اس کا بھی تو ہم پہ کچھ حق ہے؟ اس لاک ڈاون میں ہم میں سے کسی نے انکے بارے میں سوچا؟ چلیے پہلے واقعہ بیان ہوجائے کہ سردی کا زمانہ تھا بروسٹ کھانے کا پروگرام بنا ۔ اہل خانہ کے ساتھ کراچی کے مشہور بروسٹ ہاوس گئے آرڈر دیا اور فیصلہ کیا کے موسم کا لطف اٹھانے کے لئے باہر بیٹھا جائے ۔ کافی رات ہوچکی تھی کہ اور ریسٹورنٹ میں اب کم لوگ تھے ۔ لیکن ایک کتا مسلسل بھونک رہا تھا۔ کوئی گاڑی گزرے وہ بھونکنا شروع ہوجائے۔ ہمیں بھی ڈر محسوس ہوا اس وقت "سگ گدائی" کی مہم جاری تھی۔ سمجھ نہیں آرہا کہ باہر بیٹھا بھی جائے یا نہیں؟ لوگ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمارا آرڈر بھی بڑا تھا اس لیے ہمیں سرو کرنے کے بجائے دوسرے لوگوں کو پہلےفارغ کیا گیا پھر ہماری باری آئی ۔ اتنی دیر میں ریسٹورنٹ تقریبا خالی ہوچکا تھا۔لیکن کتے کے بھونکنے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آخری کسٹمر کو خدا حافظ کہنے کہ بعد (ہم تو باہر بیٹھے تھے) گارڈ نے کتے کو اشارہ کیا اور کتا تیزی سے اس کے پیچھے بھاگا ۔گارڈ ڈرم کی طرف گیا جہاں ہڈیاں اور بچا ہوا کھانا ڈالا گیا تھا۔ اس میں سے کافی ہڈیاں نکالیں اور کتے کے سامنے کردیں۔ کتا بڑی خاموشی سے کھاتا رہا جب پیٹ بھر گیا تو چپ چاپ وہاں سے چلا گیا اور پھر نہیں بھونکا۔اس واقعہ نے سب کو ہلا کے رکھ دیا۔ کہ واقعی کتے بھوکے ہونے کی وجہ بھونکتے ہیں اور حملہ کرتے ہیں ۔پہلے گوشت کی دکانوں پہ کتے اور بلیاں پائے جاتے ہیں ۔ قصائی گوشت بناتے جاتے تھے اور چھیچھڑے اور اضافی ہڈیاں زمین پر پھینکتے جاتے تھے جو ان جانوروں کی خوراک ہوتی تھی۔ پھر انسان نے ترقی کرلی اور یہ سمجھ لیا گیا کہ ہر چیز کاروبار کے لئے ہے۔ لہذا چھیچھیڑوں کو بھی بیچا جانے لگا اور ہڈیوں کا بھی کوئی نہ کوئی استعمال نکال لیا گیا۔ اب قصائی کوئی بھی چیز باہر نہ پھینکتے۔ کیونکہ چربی اور چھیچھڑے صابن، گھی بنانے، جانوروں کی خوراک اور سب سے بڑھ کر سموسوں میں بطور قیمہ استعمال ہوتے ہیں تو پھر کیا ضرورت ہے بے زبان جانوروں کو مفت میں کھیلانے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر پھر شادی ہال بن گئے اور ان شادی ہالوں میں روزانہ کی بنیاد پر بچا ہوا کھانا باہر پھینکا جانے لگا جو کہ ان جانوروں کی خوراک کا ذریعہ بنے ہوئے تھے ۔ لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب سارے ریسٹورنٹ اور شادی ہال بند کر دیے گئے ۔ تو ان جانوروں کی خوراک کا مسئلہ پیدا ہوگیا اور اسی لئے یہ کتے ، بلیاں ،چوہے اور دوسرے حشرات الارض زیادہ نظر آنے لگے کیونکہ ان کو خوراک نہیں مل رہی ہے۔ہم "بحیثیت انسان اس قدر صفائی پسند" ہیں اور اپنے گھر کا کچرا اتنا چھپا کر اور سڑا کر پھینکتے ہیں کہ کوئے اور انسانوں کے علاوہ کوئی جانور ان کو نہیں چھوتا۔ کیا ہم بحیثیت مجموعی یہ نہیں کرسکتے کہ کھانا کھانے کے بعد ہڈیاں اور بچا ہوا کھانا ایک جگہہ جمع کرکے ایک مٹی کے برتن میں رکھ کر گھر کے باہر رکھ دیں تھوڑی ہی دیر میں یہ بے زبان مخلوق آکر سب کھا جائے گی۔ یقین کریں یہ آزمایا ہوا ہے۔ اسی طرح سبزی اور پھلوں کے چھلکے کچرے میں ڈالنے کے بجائے ایک تھیلی میں جمع کرکے ان لوگوں کو دے دیں جنھوں نے بکریاں ،یا بھیڑ پالی ہوئی ہوں ۔ ایسے لوگ اطراف میں آرام سے مل جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح آٹے کی خشکی جو روٹی پکاتے ہوئے نیچے گرتی ہے اس کو اٹھا کر ایک کونے ڈال دیں ۔ حشرات الارض آکر وہ لے جائیں گے ۔ایک بزرگ نے بتایا تھا کہ اگر چوٹیوں کی لمبی لائن دیکھو تو وہاں ایک مٹھی آٹا ڈال دو تھوڑی دیر کے بعد دیکھنا کے ساری چوٹیاں غائب ہو جائیں گے۔ کیونکہ وہ انسانوں کو تنگ کرنے کے لئے نہیں بلکہ خوراک کی تلاش میں نکلتی ہیں ۔لیکن ہم کم عقل انسانوں نے انہیں اپنا دشمن سمجھ لیا ہے ۔ لہذا نت نئی کیڑے مار ادویات اور اسپرے ہمارے ماہانہ راشن کا باقاعدہ حصہ ہوتی ہیں۔ ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ اگر اپنے دسترخوان میں وسعت اور برکت چاہتے ہو اللہ کی مخلوق کا خیال کرو انکا پیٹ بھر کر ۔چاہئے وہ ایک مٹھی آٹا ہی کیوں نہ ہو ۔ ایک برتن میں پانی بھر کر رکھ دینے سے کتنے پیاسے پرندے اور جانور اپنی پیاس بجھا سکتے ہیں۔ کیا یہ سب کرنے سے ہم پر اضافی مالی بوجھ آئے گا؟ کیا کچرےکا ڈھیر کچھ کم نہ ہو جائے گا ؟ دلوں کو کتنا سکون ملے گا ذرا کرکے تو دیکھے۔۔۔۔۔۔۔۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین