• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دیکھتے جایئے۔ ووٹر کا اختیار اور نگرانوں کی نگرانی!

پتہ نہیں کیوں لگتا ہے کہ جوں جوں الیکشن کے انعقاد کی تاریخ قریب آ رہی ہے، تو ں توں کنفیوژن بھی بڑھتی جا رہی ہے…خدشات بڑے پختہ ہوتے جا رہے ہیں کہ شاید الیکشن نہیں ہوں گے… ایک سوچ یہ بھی ہے کہ اب تو الیکشن یقینی ہوں گے اور دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ جس طرح کے اقدامات الیکشن کمیشن اٹھا رہا ہے اس سے الیکشن نہ صرف یقینی ہوں گے بلکہ شفاف بھی ہوں گے جبکہ دوسری طرف سے یہی دلائل دیئے جارہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے اٹھائے گئے اقدامات نے الیکشن کے انعقاد کو مشکوک بنا دیا ہے۔ پہلے الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ امیدواروں کی اسکروٹنی بڑی سخت ہوگی، انہیں آئین کے آرٹیکل62، 63کے مطابق پرکھا جائے گا ان کے یوٹیلٹی بل، ٹیکس ریٹرن اورقرضوں کی نادہندگی کے حوالے سے دیکھا جائے گا مگر یہاں تو کسی سے کلمہ سنا جا رہا ہے،کسی کی شادیوں کا پوچھاجا رہا ہے اس طرح سے آئین کی شقوں کا مذاق بنا دیا گیا ہے۔ جعلی ڈگریوں کے حوالے سے کیس کئی ماہ سے زیر التوا تھے اب عوامی نمائندوں کو جیل بھجوایا جا رہا ہے ان کو اور دہری شہریت والوں کو نااہل قرار دینے کے فیصلے ہو چکے ہیں … الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ تمام امیدوار جو انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ان کے داخل کرائے گئے کاغذات نامزدگی عام لوگوں کو ریٹرنگ آفیسر سے حاصل کرنے کے بعد ان پر اعتراضات کرنے کی اجازت ہو گی مگر عملی طور پر عوام کو یہ کاغذات دینے سے انکار کر دیا گیا پھر یہ کہا گیا کہ الیکشن کمیشن انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اور اس حوالے سے تمام معلومات اپنی ویب سائٹ پر رکھ رہا ہے تاکہ عام لوگ اعتراضات کرنا چاہیں تو وہ کر سکیں لیکن افسوس کہ جانچ پڑتال کے چھ دن گزرنے کے بعد داخل کرائے گئے کاغذات میں سے صرف 30سے 40 فیصد ویب سائٹ پر رکھے جاسکے ہیں اور ان میں بھی کاغذات نامزدگی کے ساتھ منسلکہ دستاویزات شامل نہیں تو عوام کس طرح امیدواروں کی اسکروٹنی میں سو فیصد حصہ لے سکتے ہیں اور آج جبکہ جانچ پڑتال کی تاریخ بھی ختم ہو رہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عوام اپنی رائے دے سکیں یا امیدواروں پر اعتراض اٹھا سکیں اور الیکشن کمیشن ، اس کے زیر تحت کام کرنے والے ریٹرننگ آفیسر خود بھی کنفیوژ ہیں کہ کس پیمانے کی روشنی میں پر کھا جائے پھر معیار کی تشریح بھی ہر ایک کی مختلف ہے۔
3/اپریل کو الیکشن کمیشن نے اپنے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ ووٹر پرچی میں ووٹ نہ دینے والوں کیلئے بھی خانہ رکھا جائے گا گو یہ فیصلہ فی الحال سیاسی جماعتوں کے دباؤ میں آکر موخر کر دیا گیا ہے مگر خانہ خالی چھوڑنے کے حوالے سے تبصرے یہی کئے جا رہے ہیں کہ یہ دراصل انتخابات نہ کرانے کے انتظامات ہیں یا پھر بنگلہ دیش ماڈل پاکستان میں لانے کی کوشش ہے ۔ اب اگر پاکستانی ووٹر کو یہ اختیار دے دیا گیا تو پھر ووٹروں کی اکثریت خالی خانے میں ہی مہر لگائے گی کیونکہ کچھ لوگ سیاست دانوں کی حرکتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔کچھ کے پاس کوئی آپشن ہے مگر کچھ سب سیاست دانوں کو ایک جیسا ہی سمجھتے ہیں۔ بعض ووٹر ایسے بھی ہوں گے جن کے خیال میں خالی خانہ مہر لگانے کیلئے ہوگا ۔ اگر 51 فیصد ووٹر یہ اظہار کرتے ہیں کہ کوئی بھی امیدوار ایسا نہیں جو ان کی نمائندگی کااہل ہو تو پھر اس حلقے میں دوبارہ الیکشن کرائے جائیں گے… بس یہ کنفیوژن مزید بڑھتا جارہا ہے اور اسکروٹنی کے بعد جو صورتحال سامنے آئے گی الیکشن کے قریب ترین جو حالات پیدا ہو جائیں گے اس سے الیکشن کاانعقاد مشکوک ہو جائے گا۔ ہائی کورٹ نے تو ایک کیس کے سلسلے میں ریمارکس دیئے ہیں کہ ”الیکشن کی تاریخ معنی نہیں رکھتی صرف اچھے لوگ اسمبلیوں میں جانے چاہئیں “ یا پھر الیکشن اگر ہوگئے تو ایسے نتائج سامنے آئیں گے کہ کوئی بھی بڑی پارٹی خود حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی بلکہ آزاد حیثیت میں جیتنے والے امیدواروں کا پلڑا بھاری ہوگا اور ان کے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت نہیں بنا پائے گی اور سب لوگ ووٹر کے اختیار کا تماشا دیکھ رہے ہوں گے۔
وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتیں مع ان کی کابینہ مکمل ہو چکی ہیں۔ نگران حکومتوں کا اولین مقصد تو یہی ہے کہ انتخابات کے غیر جانبدار طریقے سے شفاف انعقاد کو یقینی بنانا ۔ اس مینڈیٹ کی وجہ سے مختلف طبقات نے نگرانوں پر کوئی تنقید نہیں کی، ان کا خیال یہ بھی ہے کہ یہ حکومتیں زیادہ سے زیادہ تین مہینے کیلئے ہیں اس لئے ان کے بارے میں مثبت سوچ ہی رکھنی چاہئے لیکن چند دونوں سے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کو اس لئے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنا لبرل اور سیکولر ہونے کاامیج جو ان کے حلف اٹھاتے وقت کچھ دھندلا ہو رہا تھا، اس کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہلہ گلہ اور خوشی کے تہوار ہونے چاہئیں اور سب سے پہلے انہوں نے اس کے لئے ”بسنت کے تہوار“ کو چنا اور یہ بھی کہا کہ اگر ہم بسنت کا فیصلہ نہ کر سکے تو کوئی حکومت پھر کبھی نہیں کر سکے گی۔ اس بارے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس جانب توجہ دلائی کہ 1995ء میں دھاتی دوڑ سے6/افراد ہلاک ہوئے تھے اور یہ تعداد بڑھتے بڑھتے2001ء میں30 تک پہنچ گئی پھر مجبوراً سپریم کورٹ کو پتنگ بازی پر پابندی لگانا پڑی۔ انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ وہ شفاف الیکشن کیلئے آخری حد تک جانے کا جو دعویٰ کیا ہے اس کو فوکس کریں اور توجہ دیں کہ سب سے بڑا صوبہ بغیر فوڈ منسٹر کام کر رہا ہے جبکہ گندم کی خریداری کا سیزن شروع ہوچکا ہے اور40لاکھ ٹن کا ہدف حاصل نہ کیا گیا تو آٹے کی قلت ہو جائے گی۔
تازہ ترین