• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب34سال پہلے پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مارشل لاء حکومت کے احکامات پر پھانسی دی گئی تھی۔ دل چاہ رہا ہے کہ ایک رپورٹر کے حیثیت سے میں نے بھٹو کی پھانسی سے پہلے یا بعد جن واقعات کا مشاہدہ کیا ہے وہ عوام تک پہنچاؤں۔ جو میں لکھ رہا ہوں وہ میرے مشاہدات بھی ہیں تو تاثرات بھی ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں کوئی ربط بھی نہ ہو مگر سب میں جذبہ ایک ہی ہوگا۔ البتہ میں اس بات پر ضرور ڈبل مائنڈ ہوں کہ بات کہاں سے شروع کروں۔دل چاہتا ہے کہ بات بیگم نصرت بھٹو کے ایک ایسے ڈائیلاگ سے شروع کروں جو تاریخی نوعیت کا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی ہوگئی۔ اس کے بعد بیگم نصرت بھٹو اسلامی رسوم کے تحت عدت میں چلی گئیں۔ عدت کے خاتمے کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے71کلفٹن میں ایک بھرپور پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ ہم صحافیوں کی ایک عجیب عادت ہے کہ ایک بھرپور پریس کانفرنس کے بعد بھی خبریت کے لئے ہماریپیاس ختم نہیں ہوتی لہٰذا جیسے ہی بیگم نصرت بھٹو71کلفٹن سے70کلفٹن جانے کے لئے دروازے پر پہنچیں تو ہم کوئی چار پانچ صحافیوں نے دروازے پر انہیں جا کر روکا۔ ہم میں ہمارے صحافی دوست صبیح الدین غوثی بھی شامل تھے (جو اب انتقال کر چکے ہیں) انہوں نے بیگم صاحبہ سے انگریزی میں سوال کیا کہ بیگم صاحبہ"Do you see any silver line" ”بیگم صاحبہ شاید اس سوال کے لئے تیار نہیں تھی۔ جواب دینے کی بجائے وہ ہم چار پانچ صحافیوں کو گھور کے دیکھنے لگیں۔ جو صحافی ذوالفقار علی بھٹو کو Cover کرتے رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کسی تقریر کے دوران یا پریس کانفرنس کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کوئی اہم بات کرنا چاہتے تھے تو اس وقت ان کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک نظر آتی تھی۔ اس وقت ہم نے بیگم نصرت بھٹو کی آنکھوں میں بھی ایسی ہی چمک دیکھی جس میں کئی کہانیاں پنہاں محسوس ہو رہی تھیں۔ اپنے جواب میں انہوں نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا "You ask me whether I see any silver line) یہ کہتے ہی وہ لبوں میں بڑبڑاتی ہوئی بولی "But Bhutto sahib has gone"۔ یہ کہنے کے بعد وہ مختصر وقفے کے لئے خاموش ہوئیں پھر انتہائی جذباتی انداز میں مگر انتہائی اعتماد سے کہنے لگیں۔
"Yes gentleman Bhutto sahib has gone but battle will continue. Now, I am commander of this battle. If I fall Benazir will take charge. If Benazir is hit Mir and if Mir.....Look, I can assure fight this battle from generation to generation."
( ترجمہ) ”دیکھئے نوجوانو! بھٹو صاحب اب نہیں رہے مگر یہ جنگ جاری رہے گی۔ اب اس جنگ کی میں کمانڈر ہوں۔ اگر میں بھی اس جنگ کا شکار ہو جاتی ہوں تو بے نظیر آگے بڑھے گی اور اس جنگ کی کمان ان کے ہاتھ میں ہوگی۔ اگر بے نظیر بھی نشانہ بن جاتی ہے تو پھر میر (میر مرتضیٰ بھٹو) … مگر دیکھئے میں آپ کو ایک بات کا یقین دلاتی ہوں کہ بھٹو خاندان یہ جنگ نسل در نسل جاری رکھے گا۔ وقت نے ثابت کیا کہ بیگم نصرت بھٹو کے اس اعلان میں کس حد تک سچائی تھی۔ آج بھٹو خاندان کی دو نسل شہادت کی سعادت حاصل کرنے کے بعد گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں سوئی ہوئی ہے اور پھر یہ بات بھی کتنی عجیب ہے کہ بیگم نصرت بھٹو کے بچوں نے اپنی بات کے اس دعوے کا کیا مان رکھا کہ کوئی بھی جنگ کے میدان سے نہیں بھاگا بلکہلڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اب یہ جنگ شاید بھٹو خاندان کی تیسری نسل کا انتظار کر رہی ہے۔ لگ تو یہ رہا ہے کہ عوام بھی بھٹو خاندان کی تیسری نسل کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان میں ہی سے کوئی آگے بڑھے گا اور ان کی قیادت کرے گا۔
میں نے بیگم نصرت بھٹو کے اس دعوے کا ذکر کیا اب میں ذوالفقار علی بھٹو کی بھی کچھ ایسے ہی دعوے کا ذکر کروں گا۔ کوہ مری کی نظر بندی کے خاتمے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کراچی میں تھے ایک دن میں جیسے ہی کراچی پریس کلب پہنچا تو افواہیں گرم تھیں کہ آج کسی وقت بھٹو کو گرفتار کیا جائے گا۔ اس وقت کلب میں میرے دوست اور سینئر صحافی علی احمد خان بھی موجود تھے۔ یہ افواہ سننے کے بعد میں اور علی احمد خان نے خاموشی سے70کلفٹن کا رخ کیا۔ 70کلفٹن پہنچنے پر بتایا گیا کہ پی پی رہنما نواب سلطان احمد چانڈیو جنہیں بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا انہیں صحت کی خرابی کی وجہ سے پولیس کی نگرانی میں جیل سے جناح اسپتال لایا گیا ہے۔ بھٹو ان کی مزاج پرسی کے لئے جناح اسپتال گئے ہوئے ہیں۔ یہ سن کے ہم دونوں بھی جناح اسپتال پہنچ گئے۔ نواب چانڈیو کا کمرہ فرسٹ فلور پر تھا۔ ہم جیسے ہی لفٹ کے ذریعے فرسٹ فلور پر پہنچے تو دیکھا کہ بھٹو صاحب سگار پیتے اور دھواں نکالتے اس کمرے سے باہر نکلے۔ بھٹو کی شخصیت میں عجیب مقناطیسیت تھی کہ بھٹو کے کمرے سے باہر نکلتے ہی 60-50 لوگ وہاں جمع ہوگئے جن میں نوجوان ڈاکٹر بھی تھے دیگر عملہ بھی تھا شاید کچھ مریض اور ان کے تیماردار بھی تھے۔ بھٹو پر نظر پڑتے ہی سب کے سب زور زور سے جئے بھٹو کے نعرے لگانے لگے۔ جیسے ہی بھٹو لفٹ کے نزدیک پہنچے تو لفٹ کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ بھٹو کے ساتھ ہم دونوں بھی لفٹ میں داخل ہوگئے۔ ہمیں دیکھتے ہی بھٹو نے تعجب سے ہماری طرف دیکھا اور انگریزی میں کہا "You gentlemen from press here?" اتنے میں، میں نے اور خان صاحب نے ایک آدھ سوال کر دیا۔ ہم نے پوچھا کہ افواہیں گرم ہیں کہ آپ آج کسی وقت بھی گرفتار ہو سکتے ہیں،کیا آپ اپنی گرفتاری کے لئے ذہنی طور پر تیار ہیں؟ بھٹو نے منہ سے سگار ہٹاتے ہوئے جواب میں کہا کہ
"You mean I am mentally prepared to face my arrest! Look I am mentally prepared to face each and every eventuality.
سچی بات یہ ہے کہ بھٹو نے اس جملے کے ذریعے سب کچھ کہہ دیا تھا انگریزی لفظ "Eventuality" کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ انہوں نے یہ لفظ استعمال کر کے بین السطور اپنی گرفتاری اور پھانسی تک کی پیشگوئی کر دی تھی۔ اسلام آباد کے سینئر صحافی اور ہمارے دوست احمد حسن علوی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ بتاتے تھے کہ بھٹو نے پھانسی سے پہلے تین دن تک سپریم کورٹ میں جو خطاب کیا تھا اسے میں نے نہیں سنا وہ ”جمیہ“ ہی نہیں (پیدا ہی نہیں ہوا) آخری دن کا ذکر کرتے ہوئے علوی صاحب بتاتے تھے کہ آخری دن اپنا خطاب مکمل کرنے کے بعد انہوں نے چیف جسٹس صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے مخصوص اسٹائل میں کہا
"Me Lord I am thankful to you for hearing me with patience during these three days. Now even if I am hanged I wont mind."
علوی صاحب نے کہا کہ یہ سب کچھ کہنے کے بعد بھٹو صاحب پھر بول اٹھے اور اب کی بار چیف جسٹس کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ But if I am hanged I will certain by say one thing i.e. Life is beautiful." اس قسم کی باتیں تو بھٹو ہی کر سکتے تھے۔ (جاری ہے)
تازہ ترین