• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی ادارہ صحت کا ماسک کے استعمال پر زور


عالمی ادارہ صحت نے ماسک سے متعلق گزشتہ ہفتے نئی ایڈوائری جاری کی اور کورونا سے متاثرہ علاقوں میں ماسک کے استعمال پر زور دیا، جینے کے نئے طور طریقوں میں ماسک جزو بنتا جارہاہے، ماسک وائرس سے بچاؤ میں کتنے مدد گار ہوتے ہیں اور کون سا ماسک کتنا کارآمد ہوتا ہے۔

فنانشل ٹائمز کی تحقیق کے مطابق زیادہ تر ماہرین کا ماننا ہے کہ ماسک کسی حد تک سانس، کھانسی یا چھینک سے نکلنے والے وائرس زدہ زرات کو روک لیتا ہے جو کورونا کے پھیلاؤ کا اہم ذریعہ ہیں، مختلف قسم کے ماسک کی الگ الگ افادیت ہے، ایک انسانی بال کا حجم پچاس سے ستر مائیکرون ہوتاہے، گرد کے زرے دس مائیکرون اور کورونا وائرس اعشاریہ ایک مائیکرون کا ہوتا ہے جس کے سرجیکل ماسک سے گزرنے کے بہرحال امکانات رہتےہیں۔

رپورٹ کے مطابق سانس کے اخراج سے بُندکیاں ڈیڑھ میٹر، کھانسی سے دو میٹر اور چھینکنے کی سمت میں آٹھ میٹر یعنی 24 فٹ تک پھیل سکتی ہیں۔

کیا ماسک سانس اندر لیتے ہوئے وائرس کا جسم میں داخلہ بھی روک سکتا ہے؟ اس حوالے سے ماہرین کہتےہیں کہ ماسک بچاؤ سے زیادہ وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں کام آتا ہے، البتہ ماسک نہ پہننے سے پہننے کے زیادہ فوائد ہیں، جیسے کہ ماسک پہننے والا اپنے ناک اور منہ کو براہ راست نہیں چھوتا تو ممکنہ آلودہ ہاتھوں سے وائرس منتقل ہونے سے بھی بچ جاتا ہے، تاہم ماسک کورونا سے بچاؤ کی باقی تدابیر جیسے ہاتھ دھونا اور سماجی دوری کا متبادل نہیں ہے۔

ماسک کی قلت کے باعث امریکی صدر اور کئی رہنماؤں کی طرف سے کپڑے کے ماسک پہننے کے مشورے دیے گئے، تائیوان کے وزیرصحت اس بارے میں کہتے ہیں کہ کچھ نہ پہننے سے کپڑے کا ماسک بہتر ہے۔

کپڑے کے ماسک کا نقصان یہ بتایا گیاہے کہ وہ گیلا ہو جاتا ہے اور وائرس منتقل کرسکتا ہے۔

برمنگھم میں صحت عامہ کے پروفیسر کے کے چینگ کہتےہیں کہ آپ مجھے بچانے اور میں آپ کو بچانے کے لیے ماسک پہنوں تو بالآخر سب محفوظ ہوجائیں گے۔

تازہ ترین