• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پارلیمنٹ کا پیر کے روز ہونے والا اجلاس توقعات کے مطابق بڑا ہنگامہ خیز رہا جس میں اپوزیشن جماعتوں نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم کےاعلان کردہ عدالتی کمیشن کو ردکرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ الزامات کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں بین الاقوامی فورنزک آڈٹ فرموں کا ایک خصوصی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اسی ذیل میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے پاناما لیکس پر انٹرنیشنل فرم کی خدمات حاصل کرنے کا مطالبہ کیا تو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے میرااور شوکت خانم اسپتال کااحتساب کیاجائے۔ سرکاری بنچوں کی جانب سے اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے ان تندو تیز بیانات کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ حکومت ہر قسم کے احتساب کیلئے تیار ہے لیکن خیرات اورزکوٰۃ کی رقم بیرونی ممالک میں لگانے والوں کا بھی محاسبہ کیا جا نا چاہئے۔ پاناما پیپرز کے لیکس سےپوری دنیا میں ایک ہلچل مچ گئی ہے۔لیکن یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ پارلیمنٹ میں جہاں اپوزیشن رہنمائوں کی تقاریر پاناما لیکس کی فورنزک تحقیقات پر مرکوز رہیں وہاں وزیراعظم کا دفاع کرنےوالے وزرا کی تقاریر زیادہ تر حریفان سیاست پر ذاتی حملوں پرمشتمل پائی گئیں۔ پاناما لیکس کے نتیجے میں آئس لینڈ کے وزیراعظم مستعفی ہوچکے ہیں۔ ارجنٹائن کے صدر کیخلاف تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون نے اپنے والد کے آف شور شیئرز میں اپنی حصہ داری تسلیم کرلی ہے۔ اسلئے اب پاکستان کے جن ارباب ِ اختیار سیاستدانوں اور دوسرے لوگوں کا ذکر آیا ہے ان کی جانب سے کی جانے والی مبینہ منی لانڈرنگ اور ٹیکس گریزی کی بھی اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہئے اور یہ معاملہ محض چائے کی پیالی میں اٹھنے والے طوفان کی طرح ختم نہیں ہو جانا چاہئے۔
تازہ ترین