• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امت مسلمہ کو بالخصوص اور دنیا عالم کو بالعموم جس مشکل ترین چیلنج کا اس وقت سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے اور مختلف اطراف سے کیے جانے والے اقدامات کے باوجود اس میں شب و روز اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان سے لے کر یورپی ممالک تک اور یورپی ممالک سے امریکہ اور افغانستان تک دہشت گرد اور انتہاپسند اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے جب اور جس وقت اور جہاں چاہتے ہیں اپنا ہدف متعین کر لیتے ہیں اور پھر اس کے نتیجے میں بے گناہ انسانیت کے بہنے والے خون سے لے کر عوام الناس اور حکومتوں کی املاک کی تباہی تک ہر اس خوفناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے دہشت گردوں کا خوف اور انتہاپسندوں کی سوچ تقویت پکڑتی ہے۔دسمبر 2015ء میں سعودی عرب کی قیادت نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف مسلم ممالک کے قائدین کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کیا اور عالم اسلام کی صورتحال پر غور و فکر کرتے ہوئے 34 اسلامی ممالک کے قائدین کی مشاورت کے ساتھ اسلامی فوجی اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا، جس کا ہدف صرف اور صرف دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ مقرر کیا گیا۔ پاکستان ان 34 ممالک میں سے ایک ایسا ملک ہے جس کی طرف ہر مشکل مرحلے میں ملت اسلامیہ اپنی نظر لگا بیٹھتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ عا لم اسلام کے مظلوم مسلمانوں کی نظریں اگر کسی طرف اٹھتی ہیں تو وہ پاکستان اور سعودی عرب ہی ہیں۔عالمی اسلامی فوجی اتحاد کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اور کیا یہ اتحاد کسی مکتبہ فکر یا ملک کے خلاف ہے تو گزشتہ چند ماہ کے دوران اس حوالے سے ملنے والی تفصیلات ، معلومات اور حقائق سے یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ اس اتحاد کا مقصد کسی ملک یا کسی مکتبہ فکر کو ہر گز نشانہ بنانا نہیں ہے ۔ اسلامی دنیا پر ہمیشہ بعض ناقدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی سرپرستی کرتی ہے بالخصوص القاعدہ ، داعش اور طالبان کے حوالے سے پاکستان اور عرب دنیا پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ان جماعتوں اور گروہوں کی سرپرستی عرب دنیا اور پاکستان کرتے ہیں ۔ اس اتحاد کے قیام کے اعلان نے ایسے تمام مفروضوں کی یکسر نفی کر دی ہے اور اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ دنیا کے حالات اور عالم اسلام کی صورتحال کسی اچھے یا برے دہشت گرد کی تمیز کی بغیر ہر قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع امیر محمد بن سلمان نے مسلم قائدین کے سامنے اس صورتحال کو رکھا اور اس بات پر مسلم قیادت نے اتفاق کیا کہ دہشت گرد اور انتہا پسند قوتیں بغیر کسی حدود اور بغیر کسی تمیز کے ہر کسی کو نشانہ بنا رہی ہیں اور ان کے حملوں کا سلسلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے وہ ایک ہی دن میں پاکستان ، سعودی عرب ، ترکی اور مصر کو نشانہ بنانتے ہیں اور ان کی اس صلاحیت کا جواب باہمی اتحاد سے ہی دیا جا سکتا ہے ۔ سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے اس اتحا دنے بلا تفریق تمام انتہاپسند اور دہشت گرد گروہوں اور جماعتوں کو اپنا ہدف بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اسی فکر اور سوچ کی ملت اسلامیہ کو ضرورت ہے ۔اس اتحاد کے اہداف کے ساتھ ساتھ اس کے طریقہ کار اور اس میں شامل ممالک کی ذمہ داریوں کے تعین کے حوالے سے ابھی بہت ساری چیزیں کی جا رہی ہیں اور بہت ساری چیزیں کرنے کی ہیں۔ جن میں فوجی اتحاد کے ساتھ ساتھ مسلم نوجوانوں کو انتہا پسندانہ سوچ سے بچانے کیلئے نظریاتی اور فکری اتحاد سب سے اہم اور مقدم ہے ۔ اس وقت انتہا پسند تنظیمیں اپنا سب سے بڑا ہدف مسلم نوجوانوں کو بنائے ہوئے ہیں اور ان کو ذہنی اور فکری طور پر یرغمال بنانے کیلئے وہ قرآن و سنت ، اسلام اور جہاد کے نام کا جس طرح استعمال کر رہی ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ مسلم علماء جن کا مسلم عوام اور نوجوانوں میں اثر و رسوخ ہے اور جو قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ان کو متحد کیا جائے اور ان کیلئے ایسا پلیٹ فارم بنایا جائے کہ جہاں سے وہ ہر ہر لمحہ اسلام ، جہاد ،قرآن و سنت کے حوالے سے پھیلائے جانے والے غلط نظریات کا جواب دے سکیں۔اسلامی عسکری اتحاد بھی وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں کے افکار اور نظریات کو چیلنج کرنے اور مسلم نوجوانوں کو ان سے بچانے کیلئے جدوجہد وقت اور حالات کا تقاضا ہے اور یہ عالمی اسلامی فوجی اتحاد بھی اس وقت اپنی کامیابیوں کو زیادہ سمیٹ سکتا ہے جب وہ ہر اس محاذ پر جدوجہد کرے جس محاذ سے دہشت گردی اور انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد پروان چڑھ رہے ہیں۔یہاں پر ایک بڑا اہم سوال بھی مسلسل اٹھایا جا رہا ہے کہ اس اتحاد میں مسلم دنیا سے دو سے تین ممالک شامل نہیں ہیں تو تمام تر تحقیق اور غور و فکر کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس طرح 34 سے زائد ممالک مسلم دنیا میں قائم تمام انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ایک سوچ اور نظریہ رکھتے ہیں اس کے برعکس اس اتحاد میں شامل نہ ہونے والے مسلم ممالک عرب دنیا میں تخریب اور دہشت پھیلانے والے بعض گروہوں کے بارے میں نہ صرف نرم رویہ رکھتے ہیں بلکہ شام ، یمن اور عراق میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ان گروہوں کی سرپرستی بھی کی جاتی ہے اور ایسی صورت میں کہ جب عرب دنیا اور اسلامی دنیا کو غیر مستحکم کرنے والے گروہوں کے بارے میں کچھ ممالک اچھے اور برے دہشت گرد کا نظریہ رکھتے ہوں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس اتحاد کا حصہ بنیں ۔ اگرچہ پاکستان سمیت بعض ممالک کی یہ کوشش اور خواہش ہے کہ عرب دنیا اور ایران کے درمیان معاملات حل ہو جائیں لیکن یہ معاملات اس وقت تک بہتر ہوتے نظر نہیںا ٓتے جب تک شام اور یمن کی صورتحال درست نہیں ہوتی اور جس طرح کہ گزشتہ دنوں سعودی عرب کے خفیہ ادارے کے سابق سر براہ امیر ترکی الفیصل نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر شام میں ایران کی مداخلت ختم ہو جائے تو سعودی عرب ، ایران مذاکرات کا راستہ ہموار ہو جائے گا اور یہی سوچ اور فکر کچھ دیگر عرب ممالک میں بھی ہے جن کا کہنا ہے کہ ایران کی بعض قوتیں اور ایک عالمی انتہا پسند تنظیم عرب ممالک کو عدم استحکام سے دو چار کرنا چاہتی ہیں ۔ ایران کے بھی ان معاملات پر اپنے تحفظات ہوں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس وقت انتہا پسندی اور دہشت گردی کا جو خطرہ پوری دنیا کیلئے پیدا ہو چکا ہے اور جس کا نشانہ یورپی ممالک بھی بن رہے ہیں اس کا مقابلہ صرف اور صرف باہمی اتحاد اور مسلم نوجوان کی ذہنی اور فکری تربیت سے کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں بننے والا عالمی اسلامی فوجی اتحاد مثبت سمت ایک پہلا قدم ہے جو ملت اسلامیہ کی امنگوں کا ترجمان ہے اور ملت اسلامیہ اس اتحاد کو مستقبل میں اپنے مسائل کا حل بھی سمجھتی ہے ۔ یہ بات کس حد تک درست ثابت ہو گی اسکا فیصلہ تو مستقبل کریگا لیکن آج یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دیر آید درست آید … دیر سے صحیح لیکن عالم اسلام کی قیادت نے مثبت سمت فیصلہ کیا ہے۔
تازہ ترین