• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں آجکل کرکٹ اور جمہوریت کے درمیان شدید مسابقت اور مقابلہ نظر آرہا ہے۔ نظام سیاست بھی انتشار کا شکار ہے۔ کرکٹ ٹیم کا ہارنا کوئی اتنی بڑی بات نہیں مگر ہارنے کے بعد جو راگ الاپا جاتا ہے اس سے عوام کو شدید کوفت ہوتی ہے۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی قسمت میں جیت لکھی تھی ورنہ گورے ان کو کہاں جیتنے دیتے مگر مقابلہ بہت ہی خوب تھا اور کھیل نے بھرپور مزا دیا۔ ورلڈ ٹی ٹونٹی کا فائنل جیتنے کے بعد ہی ویسٹ انڈیز کے سیاہ فام کپتان ڈیرن سیمی نے آواز حق بلند کی۔ ورنہ اس سے پہلے ویسٹ انڈیز کے تمام کھلاڑی مایوسی کے باوجود دل لگا کر کھیلتے نظر آئے۔ اس دفعہ ورلڈ کپ ٹی ٹونٹی جوئے بازوں کے حوالے سے بہت مایوس کن رہا۔ خیال یہ کیا جارہا تھا کہ اصل مقابلہ بھارت اور کسی دوسرے کے درمیان فائنل میں ہوگااور اگر ایسا نہ ہوا تو بھارتی فائنل میچ زیادہ تعداد میں دیکھنے نہیں آئینگے، مگر تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ ملکی سیاست کا اسیر لگتا ہے۔ پہلے تو چیئرمین ایک ایسے شخص کو بنایا گیا جو قوت فیصلہ سے محروم تھا پھر بورڈ کے ارباب و اختیار آپس میں ہی اختلاف کرتے رہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اورہماری کابینہ آج کل ایک ہی طرح کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔
کچھ عرصے پہلے وکی لیکس کا شور شروع ہوا تھا۔ اس میں پاکستانی سیاست کے اہم کرداروں کاخوب تبصرہ تھا۔ ہمارے سیاستدانوں کو وہ وقت بہت مشکل لگ رہا تھا، پھر دنیا بھر کی سیاست میں وکی لیکس امریکی کردار کا سراغ لگار ہی تھی امریکی کردار کے بارے میں باتیں تو ہوتی رہتی تھیں مگر ثبوت کے ساتھ امریکی کردار اور پالیسی لوگوں کے لئے حیران کن تھی۔ وکی لیکس کے مواد پرامریکی سرکار خاموش رہی مگر اس نے اپنے اندر کی خامیوں پرتحقیق ضرور کی اور وکی لیکس کے نشان زدہ لوگوں کو پکڑنے میں دوسرے اہم دوستوں کی مدد بھی کی۔ وکی لیکس کا طوفان کو ئی زیادہ اثر نہ دکھا سکا۔ اب نیا سیاسی طوفان پاناما لیکس کا تمام دنیا میں پھیلتا نظر آرہا ہے ، کچھ ممالک نے اس پر پیش بندی بھی شروع کردی ہے مگر ہمارے ہاں پاناما لیکس کے جھٹکے تو بہت محسوس کئے جارہے ہیں مگر نقصان کا زیادہ اندیشہ نہیں لگ رہا۔ ہمارے ہاں اس کا ہدف میاں نواز شریف کا خاندان لگ رہا ہے جبکہ اشرافیہ کے اہم لوگ بھی پاناما لیکس میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے اپنا دھن ملک سے باہر رکھتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف مسلسل سیاسی اور سماجی طور پر کوشش کرتے رہتے ہیںکہ ان کی مدت آرام اور سکون سے گزر جائے مگر ان کی کابینہ کوئی کردار ادا کرتی نظر نہیں آتی، پھر مجبوری کے طور پر میاں نواز شریف کو خود ہی میدان میں آنا پڑتا ہے۔ جب پاناما لیکس کا معاملہ پاکستان میں شروع ہوا تو سیاست کے تمام کھلاڑی میاں نواز شریف کو نشانہ ستم بنانے پر تل گئے، اگرچہ کچھ بڑے اور چھوٹے وزیروں اورمشیروں نےشور مچایا مگر اس کا تاثر بھی عمومی طور پر میاں نواز شریف کے حق میں نہ تھا۔ اس معاملے کو دیکھنے کے بعد میاں نواز شریف کو ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے عوام سے رابطہ کرنا پڑا مگر میاں نواز شریف کی تقریر اصولی، اخلاقی اور قانونی طور پر خاصی کمزور رہی۔ انہوں نے سارا زور اور لفاظی اپنے خاندان کی صفائی دینے پر لگائی اور ایک عدالتی کمیشن کا اعلان بھی فرمادیا جبکہ اس ملک میں کمیشن کی تاریخ کوئی زیادہ تابناک نہیں۔ کمیشن بنانے میںہمارا کوئی اور ملک مقابلہ بھی نہیں کرسکتاپھر کوئی بھی سابقہ کمیشن آج تک کوئی تبدیلی نہیں لاسکا بلکہ ہمارے سیاسی نیتا ان کمیشنوں کی تاریخ کو اپنے مخالفوں کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں، پھر میاں نواز شریف کے اعلان کمیشن کے بعد سوال اٹھایا جارہا ہے کہ یہ عدالتی کمیشن ہےکہ انکوائری کمیشن ہے۔ اصل میں ایسے کسی اعلان کی ضرورت نہیں تھی۔ سرکار کو ان تمام لوگوں کے بارے میں تحقیق کی ضرورت ہے جن کا نام آف شور کمپنیوں کےحوالے سے آرہا ہے، پھر ان کی آمدنی کے ذرائع بھی معلوم کرنے ضروری ہیں جبکہ کرپشن کے حمام میں اکثر سیاسی اور سماجی طور پر بااثر لوگ ننگے ہیں اور ایک دوسرے سے شرماتے بھی نہیں۔کرپشن کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ اس کو نظام کا حصہ تصور کرنے لگ گیا ہے ۔ حکومتی دعوے اور بڑے لوگوں کی بڑھکیں کہ انہوں نے ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں۔ اب کون دھیلوں میں کرپشن کرے گا ۔ پاناما لیکس پر سب سے اچھا ردعمل محترمہ تہمینہ درانی کا ہے کہ اضافی دولت کو عوام میں تقسیم کردیا جائے اور باہر کی تمام دولت کو ملک میں واپس لایا جائے۔ انہوں نے بڑی حکمت کی بات کی ہے مگر اس پر عمل کرنا ناممکن ہے۔ ایسے میں کون شہید دولت بننے کو تیار ہوگا۔ میاں نواز شریف کی تقریر سننے کے بعد مرحوم افتخار نسیم کا شعر خوب یا د آتا ہے۔ اس نے نجانے شگاگو میں کس موسم میں اتناعمدہ شعر لکھا تھا؎
ابھی تو دل میںہے جو کچھ بیان کرنا ہے
یہ بعد میںسہی کس بات سے مکرنا ہے!
اصل میں پاناما لیکس کی خبروں کےبعد ایک اور خوف کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان کےدوست اور اہم حلیف ادارے آئی ایم ایف کوئی مشکل نہ کھڑی کردیں اورایسی قانون سازی کروائیں جو عوام کے مفاد میں ہو یا نہ ہو مگر سیاستدانوں کے پر کاٹ سکتی ہو۔ اس وقت ڈار صاحب جو بہت بڑے ماہر معیشت بن چکے ہیں وہ کس کا ساتھ دیں گے، پھر ملک بھر میں جمہوریت پسند طبقے اپنا کیا کردار ادا کرینگے۔ آنے والے دنوں میںسب کچھ مشکل سا نظر آرہا ہے۔ معاملہ کرکٹ بورڈ کا ہو اور مسئلہ پاناما لیکس میں شامل پاکستان کی ا شرافیہ کا۔ پاکستان کے عوام تو فقط آزمائے جاتے ہیں اورہمیشہ آزمائش میں پورے ا ترتے ہیں۔ وہ سیاست اور جمہوریت کے جنگل میں شکار ہونےوالے ہیں جو ہرنوں کی طرح ہر دم بے کل سے رہتے ہیں اورخطرے کا اندازہ بھی نہیںکرپاتے اس جمہوریت اور سیاست کے گھنے جنگل میں شکاریوں اورشیروں کی کمی نہیں۔ اب عوام کس سے ڈریں۔
اس دہشت میں ہرن کبھی واپس گئے نہیں
اک شیر کا بھی ڈر تھا شکاری کے ڈر کے ساتھ
دشت اپنا اور مزاج بیگانہ۔ اسلئے آنے والوں دنوں سے ابھی دل ڈر رہا ہے۔
تازہ ترین