• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران احمد سلفی

یہ نظام قدرت ہے کہ دنیامیں آنے والا ہر انسان کسی نہ کسی ضابطے کے تحت زندگی گزارتاہے، یہ گوناگوں ضابطے بنیادی طورپر دو ہی ہیں۱۔اللہ کاعطاکردہ ضابطہ۲۔ شیطان کے مختلف ضابطے۔انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اختیار واراداے کی قوت دےکر اپنی مرضی وپسند سے اپنا ضابطہ ٔحیات،زندگی گزارنے کاطریقہ مقرر کرنے اور اس کے مطابق زندگی گزارانے کےلیے زمین پر بھیجا ۔

خالق ومالک نے اپنی پسند کاضابطہ حیات بھی انسان کی ہدایت کے لیے بھیجا اور ساتھ ہی ’’اسوہ‘‘ قائم کرنے اورباربار یاد دہانی کرانے کا ایک خصوصی سلسلہ بھی جاری کیا جوخاتم الانبیا، حضرت محمد مصطفیٰﷺ پراختتام پزیر ہوا، یوں حضرت آدم علیہ السلام سےخاتم الانبیا حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرانبیاء اور رسولوں نے انسانوں کو اللہ کے اس مخصوص ضابطے کی دعوت دی اور ان کی اپنی زندگی اپنی امت کےلیے مشعلِ راہ او ر اسوہ کاکام دیتی رہی ۔

رسول اللہﷺ کے بعد اب رہتی دنیا تک صرف آپﷺ کی دعوت اورپوری زندگی کا’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہی دنیابھر کے انسانوں کےلیے لائق اطاعت وپیروی ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے، اللہ کے نزدیک دین (ضابطۂ حیات) صرف اسلام ہے۔اسلام نے کائنات وانسان کے مقصد تخلیق، ایمان بالغیب، ملائکہ،آسمانی کتب، رسولوں اورآخرت پر یقین کا ایک جامع اور واضح فلسفہ پیش کیا ہے جو عقل اوروجدان ہر لحاظ سے معقول وثابت شدہ حقائق پر مبنی ہے ۔ اسلام انسانی زندگی میں ایک خاص نظم وضبط پیداکرتاہے۔اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ضابطے اور طریقے کے مطابق انسان ایک خاص ڈسپلن میں زندگی گزارتاہے ،خواہ اس راہ میں اسے کتنی ہی صعوبتیں پیش آئیں،انہیںخندہ پیشانی سے برداشت کرتاہے ۔

اللہ تعالی کی عظیم ترین خیر خواہی یہ ہے کہ صرف اسی کی بندگی اور عبادت کی جائے، اخلاص، سنت نبوی اور طریقہ نبوی ﷺ کے مطابق عبادت کریں، ہر قسم کی عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لئے بجا لائیں۔ دعا، مدد طلبی ،استغاثہ اور توکل اللہ پر ہی کریں ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے،آپ کہہ دیں: میں تو اپنے پروردگار کو ہی پکارتا ہوں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔(سورۃالجن)

اللہ تعالیٰ کی بندگی اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ صفاتِ کمال اور جلال کا مالک ہے، وہ ہمہ قسم کے نقائص اور عیوب سے پاکیزہ اور منزہ ہے، ساری مخلوقات پر اسی کی نعمتیں ہیں، سب لوگ اسی کی رحمت کے سوالی ہیں، اس لیے اللہ کی عبادت اللہ تعالیٰ کی رضا اورو اس کے قرب کا باعث ہے۔ اللہ کی بندگی، زندگی میں اور زندگی کے بعد بلائیں ٹالنے کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خیر خواہی یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے لیے ثابت کیا ہے اور جو کچھ اسماء و صفات رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت قرار دی ہیں ،انہیں اسی انداز سے ثابت مانا جائے جیسے سلف صالحین نے مانا تھا۔حضرت ابو امامہؓنبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میری خیر خواہی، بندے کی میرے ہاں محبوب ترین عبادت ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: آپﷺ سے محبت ہو، آپ کا احترام کیا جائے، آپ کی سنت کی تعظیم ہو اور آپ کے احکام کی تعمیل کریں، آپ کے منع کردہ کاموں سے بچیں، آپ کی شریعت کے مطابق اللہ کی عبادت کریں، آپ کی سیرت کو اپنائیں، آپ کی احادیث کی تصدیق کریں، ان احادیث کو آگے پھیلائیں، دین محمدی کی جانب لوگوں کو دعوت دیں، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:: کہہ دو: اللہ کا حکم مانو اور رسولﷺ کا حکم مانو، لیکن اگر تم پھر جاؤ تو رسول کے ذمے صرف وہ ہے جس کا وہ مکلف بنایا گیا ہے اور تمہارے ذمے وہ جس کے تم مکلف بنائے گئے اور اگر اس کا حکم مانو گے تو ہدایت پا جاؤ گے۔(سورۃالنور)

کتاب اللہ کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: قرآن کریم کی تعظیم کریں، قرآن سے محبت کریں، اسے سیکھنے ، سکھانے اور قرآنی احکام سمجھنے کی پوری کوشش کریں، قرآن کریم کی صحیح انداز سے تلاوت کریں، قرآن کے احکامات کی تعمیل کریں اور ممنوع امور سے اجتناب کریں،پابندی سے قرآن کریم کی تلاوت کریں، قرآن کے حروف اور حدود کو یاد رکھیں، قرآن کریم کی تفسیر، معنی اور مراد کی معرفت حاصل کریں، قرآن کریم پر تدبر کریں، اپنا اخلاق قرآن کے مطابق بنائیں، قرآن و سنت کے فہم میں غلطی کھانے والوں کو جواب دیں، ان کی باطل باتوں کا رد کریں اور ان سے خبردار کریں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: بےشک ،یہ قرآن اسی کی رہنمائی کرتا ہے جو انتہائی مضبوط راستہ ہے۔(سورۃالاسراء)

مسلم حکمرانوں کے لئے خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ: حکمرانوں کے لئے خیر پسند کریں، ان کے عدل کو پسند کریں، ان کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کریں، انہیں دھوکا نہ دیں، ان کے ساتھ خیانت نہ کریں، ان کے خلاف بغاوت نہ کریں،حق بات پر ان کے ساتھ تعاون کریں، گناہوں کے علاوہ ہر کام میں ان کی اطاعت کریں، ان کی کامیابی اور فیصلوں میں درستی کی دعا کریں۔

سیدنا ابو ہریرہؓکہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بےشک ،اللہ تعالیٰ تم سے تین چیزوں کو پسند کرتا ہے کہ: تم اسی کی عبادت کرو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ، سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہوں میں مت بٹو، اور جسے اللہ تعالیٰ نے تم پر حاکم بنایا ہے اس کی خیر خواہی کرو)

خیر خواہی انبیائے کرام اور رسولوں کی صفت ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: بلاشبہ ،یقیناً تمہارے پاس تم ہی میںسے ایک رسول آیا ہے، اس پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت گراں ہے، تمہارا بہت خیال رکھنے والا ہے، مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔(سورۃالتوبہ)

خیر خواہی مومنین کی صفات میں بھی شامل ہے، سورۂ یٰسین میں مذکور مومن کی دعوت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم رسولوں کی اتباع کرو۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہوں میں مت بٹو۔(سورۂ آل عمران) اسی طرح فرمایا: بےشک ،مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔(سورۃالحجرات)

اللہ تعالیٰ میرے اور آپ سب کے لئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و تعلیمات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)

تازہ ترین