• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہائی کورٹ کے مسٹرجسٹس منصور علی شاہ نے جمہوریت دوست عوام کا دل خوش کردیا ہے، انہوں نے ان ریٹرننگ افسروں کی بروقت گوشمالی کی جو انتخابات کے ایک اہم اور سنجیدہ مرحلے پر غیرسنجیدہ رویہ اختیار کئے ہوئے تھے۔ انتخابی امیدواروں سے ایسے ایسے سوالات کئے جارہے تھے جن میں سے کچھ کے سوالات شاید خود انہیں بھی نہ آتے ہوں۔ ایسے مواقع کی ویڈیو بھی ٹی وی چینلز کے ذریعے ملک کے کروڑوں عوام کو دکھائی جارہی تھی جس میں انتخابی امیدوار تماشا بنے نظر آتے تھے۔ اللہ بھلا کرے جسٹس منصور علی شاہ کا کہ انہوں نے خود نمائی کے ان بے ہودہ مناظر پر پابندی عائد کی۔ انتخابی امیدواروں سے غسل، طہارت، دعائے قنوت اور کلمہ وغیرہ کے بارے میں سوالات کرنے کو ممنوع قرار دیا،نیز کمرہ عدالت میں ویڈیو کیمروں کی ”آمد“ پر بھی پابندی عائد کردی۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات عام ہورہی تھی کہ یہ دراصل دعائے قنوت سے سورة یسیٰن تک کا سفر ہے جو انتخابات کے عمل سے متنفر کرنے اور پھر خاتمہ بالخیر کے لئے روا رکھا گیا ہے۔ تھینک گاڈ اور تھینک ٹو جسٹس منصور علی شاہ کہ اس بدہیت سفر کا ایک مرحلہ (ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں) راستے ہی میں روک دیا گیا۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ کے نیک نام اور فاضل جج مسٹر جسٹس اعجاز چودھری سے اسی مسئلہ پر بات ہوئی تو میرے لئے یہ امر بہت خوشگوار تھا کہ جسٹس صاحب اپنی تمام تر دینداری اور دینی شعائر کی پابندی کے باوصف دفعہ 62-63کے غلط استعمال کو اسلام اورعدلیہ کا مذاق اڑانے کے مترادف سمجھتے تھے۔
وہ صحیح کہہ رہے تھے کہ اگر کسی کو دعائے قنوت یا د نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔ انہوں نے دوران گفتگو سورة بقرہ کی 177ویں آیت کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا ہے کہ نیکی کیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نیکی یہ نہیں کہ تو نے مشرق کی طرف منہ کیا یا مغرب کی طرف بلکہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر ایمان لائے اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر، کتاب پر اور انبیاء پر اورمال کو قرابت داروں، یتیموں ، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور گردنیں چھڑانے کے لئے سلسلے میں خرچ کرے۔اس آیت کریمہ کے بعد کیا کسی بھی شخص کو اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ کسی کا ایمان پرکھنے کے لئے پوچھے کہ تمہاری بیویاں کتنی ہیں اور تم کس کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہو، وغیرہ وغیرہ۔ حیرت کی بات ہے کہ کسی ریٹرننگ افسر نے کسی انتخابی امیدوار سے نیکی کی اس تعریف کے حوالے سے کوئی سوال نہ کیا جو قرآن نے بیان کی ہے ،یعنی کسی سے نہ پوچھا گیا کہ کیا تم اللہ کا دیا ہوا مال غریبوں ،مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرتے ہو؟ پوچھا گیا تو وہی کچھ جس کا ایمان سے کوئی براہ راست تعلق نہیں۔ دراصل ہمارے ہاں فقہ کو دین سمجھ لیا گیا ہے اور ضیاء الحق صاحب ایسے لوگوں نے پاکستان میں دین نہیں فقہ نافذ کرنے کی کوشش کی، جس کے بھیانک نتائج مختلف صورتوں میں آج قوم بھگت رہی ہے۔
اب اگر انتخابی عمل کی بات چھڑی ہے تو نگران وزیر داخلہ صاحب کا یہ بیان بھی سن لیجئے کہ صف اول کے رہنماؤں نواز شریف، عمران خاں اور مولانا فضل الرحمان میں سے کسی ایک کو باطل قوتیں قتل کرنے کا پلان بناچکی ہیں تاکہ انتخابات پر اثر انداز ہوا جاسکے۔ یہ اور اس طرح کی دوسری بہت سی افواہیں بالآخر انتخابات سے جان چھڑانے کی اس خواہش کی آئینہ دار ہیں جس کا ذکرکئی مہینوں سے سننے میں آرہا ہے۔ میں نہیں جانتا یہ باطل قوتیں کون سی ہیں لیکن جو کوئی بھی ہیں انہیں جان لینا چاہئے کہ کسی لیڈر کی جان لینے سے انتخابات ہی سے نہیں(خاکم بدہن) پاکستان سے بھی ان کی جان چھوٹ جائے گی۔
جنرل پرویز مشرف ان دنوں پاکستان میں ہیں اور ان کے ہاتھوں ظلم برداشت کرنے والے بہت سے لوگ ان کی شکل دیکھنے کے روا دار نہیں۔ مجھے اصل خطرہ جنرل صاحب کی جان کو لگتا ہے کیونکہ اس کا ملبہ بآسانی کسی اور پر ڈالا جاسکے گا۔ اللہ تعالیٰ ان باطل قوتوں کو ہدایت دے جو اپنے اغراض کے لئے برصغیر کے مسلمانوں کی اس آخری پناہ گاہ کو مسمار کرنا چاہتی ہیں۔
میں نہیں جانتا اس بدقسمت قوم کو ان بلاؤں سے کون محفوظ رکھ سکتا ہے جو پاکستان کی جان کے درپے ہیں تاہم میں اگر بااختیار ہوتا اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت اور حوصلہ بھی دیا ہوتا ،میرا دل پاکستان کی محبت سے سرشار بھی ہوتا اور میں اس بے بہا نعمت کے تحفظ کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار بھی ہوتا تو ان باطل قوتوں کو کونوں کھدروں سے نکال کر عوامی کٹہرے میں لاکھڑا کرتا اور دیکھتا کہ کون مائی کا لال میرے پاکستان کو کو گزند پہنچانے کی بابت سوچتا بھی ہے، اگر ان باطل قوتوں کا تعلق ان نام نہاد مذہبی گروہوں سے ہے جو شمالی وزیرستان ہی نہیں ہماری زندگی کے مختلف شعبوں میں چھپے ہوئے ہیں اور انتخابات کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں یا وہ لوگ ہیں جو ملکی ترقی کے لئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت لانے کے خواہشمند ہیں تو میں چونکہ بااختیار نہیں بلکہ ایک بہت کمزور سا شخص ہوں چنانچہ ان سے صرف ہاتھ باندھ کر رحم کی اپیل ہی کرسکتا ہوں۔ خدا کے لئے اس ملک اور اس کے کروڑوں عوام پرر حم کرو، انہیں ترقی کی منزلوں کا سفر جمہوری راستوں کے ذریعے طے کرنے کا ایک موقع تو دو، خدا کے لئے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے۔
تازہ ترین