• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن کے دوست سہیل وڑائچ نے اتنا درد ناک کالم لکھا کہ دکھی کرکے رکھ دیا۔ کیا کچھ نہ یاد آتا رہا۔ لکھن وال کے سارے قصے، جوہر آباد اور پھر لاہور، اسلام آباد، سمیت کئی شہروں میں بکھری ہوئی داستانیں، کئی یادگار سیمینارز، کچھ رنگوں بھری محفلیں، کئی گنگناتے ہوئے لمحات، موسموں کے رنگ، رنگوں میں بکھری ہوئی یادیں، زندگی کے سارے گیت، سب کچھ لمحوں میں یاد آگیا۔

 ابھی چند دنوں کی بات ہے، میں اسے احتیاطی تدابیر بتا رہا تھا، میں نے رحمت (بیٹے) کے لئے خصوصی ہدایت نامہ جاری کیا۔ بلاشبہ جنگ؍ جیو میں میری سب سے پرانی دوستی سہیل وڑائچ ہی سے ہے۔ میں پورے پنجاب کا عاشق، وہ پگڑی پہ رک جاتا ہے مگر پنجابی گیتوں سے دونوں کو محبت ہے، بھنگڑا دونوں کو اچھا لگتا ہے، دل لگی بھی دونوں کو پسند ہے۔ 

دوستی میں کئی بار اسے سنا بھی دیتا ہوں پھر جب محبتوں کا موازنہ کرتا ہوں تو وہ جیت جاتا ہے، میں ہار جاتا ہوں۔ ہماری دوستی رحمت کے آنے سے پہلے بھی تھی، رحمت کے آنے سے اس میں اضافہ ہوا، یہ دوستی ہمیشہ رہے گی۔ اس کے گھر جاتا ہوں تو وہ رحمت کو بلا کر میرے پاس بٹھا دیتا ہے اور بلاتکلف بیٹے سے کہتا ہے ’’اپنے انکل سے فلاں گر بھی سیکھ لو، محبت کا تعویذ بھی لے لو، محبت کا جادو کیسے جگاتے ہیں یہ بھی سیکھ لو، ہم نے انہی سے سیکھا ہے‘‘ خیر مجھے یہ بےتکلفی اچھی بھی لگتی ہے، یہ دعا بھی ہے کہ رحمت ایک کامیاب فٹ بالر بن جائے۔ 

چند مہینے پہلے پتا نہیں ہمدم دیرینہ کو کیا سوجھی، مجھے گھر کے صحن میں لے آیا پھر پرانے برتن دکھانے شروع کیے، کہیں تھالی نظر آئی، کہیں پرات، ایک طرف چرخہ بھی، پھر ایک قدیمی دروازہ دکھایا اور پھر یوں گویا ہوا ’’یہ میرے اجداد کی یادیں ہیں۔

گھر والوں نے انہیں ختم کرنے کی بڑی کوشش کی مگر میں نے انہیں سنبھال کر رکھا ہے، ہمارا یہ اثاثہ ہیں‘‘ یادوں کا انبوہِ کثیر ہے مگر چھوڑیے، آئیں ہم سب مل کر دعا کرتے ہیں خدا ہمارے دوست سہیل وڑائچ کو سلامت رکھے، یار روز کہاں ملتے ہیں۔

ہمارے دوست محمد سلیم بیگ بھی کمال کے آدمی ہیں، ان سے پرانے مراسم ہیں، وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں سیاست کرتے رہے، پھر سی ایس ایس کرکے بابو بن گئے مگر سیاسی دلچسپیاں برقرار رہیں، وہ معاشرے کو سیاست اور حقائق کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لکھنے پڑھنے کا شوق عشق کی حد تک ہے۔ 

اب چیئرمین پیمرا ہیں مگر کتاب بینی کی عادت ہنوز سلامت، انہیں کچھ دن پہلے ماں سے جدائی کا صدمہ سہنا پڑا۔ ماں تو آخر ماں ہوتی ہے، مائوں کی محبت نہ کتابوں کی محتاج ہے، نہ اس محبت کو تبصروں کی ضرورت، یہ بےمثال محبت ہے۔ ماں پھولوں کو پالتی ہے، صحن مہکاتی ہے اور پھر یہ خوشبو وطن کے حوالے کردیتی ہے۔

 سلیم بیگ کے والدین امرتسر کے تھے، امرتسر بھی یادوں کا سمندر ہے۔ ایک روز برادر بزرگ عطا ءالحق قاسمی کہنے لگے ’’بچپن کی بات ہے لاہور میں سیاہ بادل آئے، برسنا شروع ہوئے تو ہم نے کہا ماں جی! کتنے اچھے بادل ہیں، کتنی اچھی بارش ہے۔ ماں خالصتاً پنجابی میں کہنے لگیں ’اوپتر مینہ اوہو ای سن جیہڑے امبرسر ورھ گئے‘‘ (بیٹا بارشیں وہی تھیں جو امرتسر میں برس گئیں) سلیم بیگ کے ہاں گیا تو پرانے قصے چھڑ گئے۔

وہ بتانے لگے کہ انہیں والدہ نے تین باتوں کا حکم دیا تھا، کہنے لگیں’’بیٹا ہمیشہ عاجز رہنا، کبھی غرور اور تکبر کو قریب نہ آنے دینا، ہمیشہ فیض رساں رہنا، لوگوں کوفائدہ پہنچانا، کسی کا نقصان نہ کرنا، کبھی ظلم نہ کرنا، کسی سے بدلہ نہ لینا، انتقام کو ذہن سے نکا ل دو‘‘ سلیم بیگ کہتے ہیں کہ زندگی میں یہ تین باتیں ہمیشہ میرے ساتھ رہیں اگر کسی کی غلطی پر مجھے غصہ آیا بھی تو ماں میرے سامنے آ جاتی، بس پھر ماں کے سامنے کون بول سکتا ہے۔ 

ماں بچھڑ جائے تو دعا کرنی چاہئے کہ ہمیں جو ملا ماں کی دعائوں سے ملا۔

آج کل کورونا کا موسم ہے۔ اس موسم میں مائوں، دادیوں اور نانیوں کے تمام نسخے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ہر کسی نے لہسن، ادرک، ہلدی، سنا مکی، لونگ اور دار چینی کا استعمال بڑھا دیا ہے۔ 

یہ بات دلیل ہے کہ ہمارے بزرگ سیانے تھے، بزرگوں کی باتیں ماننی چاہئیں، اس موسم میں ڈاکٹرز جہاد کر رہے ہیں، خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 

گجرات سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر تمکنت منصور ایک طرف خدمات انجام دے رہی ہیں تو دوسری طرف لوگوں کو سوشل میڈیا، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے کورونا سے متعلق احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرر ہی ہیں، معاشرے میں پھیلے ہوئے پروپیگنڈے کا جواب بھی دے رہی ہیں کہ ڈاکٹر آپ کے دشمن نہیں، ڈاکٹر مسیحا ہیں، آپ کے لئے اپنی جانوں کو خطرات میں ڈالتے ہیں۔ مجھے ایمان قیصرانی یاد آرہی ہیں۔ 

یہ شاعرہ دو ڈھائی سال پہلے جب میں اور منصور آفاق ڈیرہ غازی خان گئے تھے تو ایک مشاعرے میں ملی تھیں۔ کورونائی موسم میں ایمان قیصرانی کی غزل کے چند اشعار :

ہنسنے رونے سے گئے، ربط بڑھانے سے گئے،

ایسی افتاد پڑی سارے زمانے سے گئے

وہ تعفن ہے کہ اس بار زمیں کے باسی

اپنے سجدوں سے گئے، رزق کمانے سے گئے

دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو

کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے

اس قدر قحطِ وفا ہے مرے اطراف کہ اب

یار یاروں کو بھی احوال سنانے سے گئے

اپنا یہ حال کہ ہیں جان بچانے میں مگن

اور اجداد جو تھے، جان لڑانے سے گئے

تجھ کو کیا علم کہ ہم تیری محبت کے طفیل

ساری دنیا سے کٹے، سارے زمانے سے گئے

تازہ ترین