• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جون کا مہینہ شروع ہوتے ہی اخبارات میں لاہور کے شہریوں کی طرف سے شکایات شائع ہونے لگیں کہ کورونا وائرس کی وبا اور مہنگائی کے طوفان کے دوران انہیں بجلی کے بھاری بل بھیجے جا رہے ہیں جن سے ان کی مالی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ مجھے پانچ جون کی شام بجلی کا بل آیا جس نے پچھلے مہینے کے مقابلے میں تقریباً سولہ ہزار روپوں کی جست لگائی تھی حالانکہ مئی کا مہینہ خاصا ٹھنڈا گزرا تھا اور بجلی بھی کم استعمال ہوئی تھی۔ 8جون کے روزنامہ جنگ میں لیسکو کے ترجمان نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس بار بل زیادہ تر میٹر ریڈنگ کے بغیر اوسط کے فارمولے پر بھیجے گئے ہیں، صارفین ان کی تصحیح کروا سکتے ہیں اور قسطوں میں ادائیگی ہو سکتی ہے۔ میں نے ایکسین صاحب کو دو قسطیں کر دینے کی درخواست بھیج دی۔ انہوں نے پچیس پچیس ہزار کی دو قسطیں کر دیں اور میرے بل میں بیک جنبشِ قلم دس ہزار روپے کا اضافہ فرما دیا۔

میں ابھی اس ناانصافی کے منطق سوچ ہی رہا تھا کہ شام نگر سے ایک دوست کا فون آیا جو اپنے گھر کے آس پاس ابھرنے والے مناظر سے حد درجہ پریشان تھے اور بتا رہے تھے کہ میرے محلے میں لیسکو کا آفس ہے جہاں بلوں میں درستی کے لیے سائلین کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے ہوئے ہیں اور کڑی دھوپ میں چوٹی سے ایڑی تک پسینہ بہہ رہا ہے۔ اس کے علاوہ بلوں کی رقم ادا کرنے کے لیے مختلف بینکوں کے سامنے بھی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور صرف ایک بینک نے کرسیوں کا انتظام کیا ہے۔ یہی رُوداد میرے ایک دوسرے دوست نے باغبانپورہ سے بیان کی۔ ایسے میں مجھے اپنے ایک نہایت عزیز دوست جناب توصیف خاور یاد آئے جو واپڈا سے چیف انجینئر کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں اور 1968سے میرے شناسا چلے آ رہے ہیں، ان سے پہلی بار سکھر بیراج پر ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ اپنا علمی اور نظریاتی تشخص بھی قائم رکھا ہے۔ میں نے ان سے لیسکو کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ مجاہد چیمہ صاحب نہایت اچھی شہرت کے حامل ہیں اور عوام کے مسائل حل کرنے میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ میں نے ان کے موبائل پر فون کیا تو ان کے پی اے نے اٹھایا جو خوش خلقی سے پیش آیا، میں نے ایک سینئر صحافی کی حیثیت سے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ میں عوام، جس کا میں بھی ایک حصہ ہوں، کو پیش آنے والی انہونی مشکلات کے بارے میں چیمہ صاحب سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ پی اے نے روایتی انداز میں کہا کہ اس وقت صاحب مصروف ہیں اور فراغت ہوتے ہی کی بات کروا دوں گا۔

اب اس بات چیت کو ہوئے 72گھنٹے گزر چکے ہیں اور چیمہ صاحب کو عوام کی تکالیف پر بات کرنے کی فرصت نہیں ملی ہے۔ یوں لگتا ہے میری بات ان تک صحیح طور پر نہیں پہنچی ہے۔ غالباً پی اے نے میری بات کو اسی طرح غیراہم قرار دے دیا ہوگا جس طرح ہمارے طاقتور وزیراعظم نے کورونا وائرس کو معمولی نزلہ زکام خیال کیا اور اپنے عوام کو گھبرانا مت کا پیغام دیا، جس کے اثرات خوفناک شکل میں نمودار ہو رہے ہیں اور وبا کی تباہ کاریوں میں شدت آتی جا رہی ہے۔ خدشہ یہی ہے کہ اسی طرح بجلی کے بلوں کا مسئلہ اگر آج حل نہ کیا گیا، تو مستقبل میں نئے بحران سر اٹھا سکتے ہیں۔ یہ کس قدر بےانصافی ہے کہ ہمارے بجلی کے بلوں میں پچیس تیس فیصد طرح طرح کے ٹیکس اور اخراجات صارف کی اجازت کے بغیر شامل کر دیے جاتے ہیں۔ اب چونکہ بجلی کے صارفین کی کوئی رجسٹرڈ ایسوسی ایشن موجود نہیں، اس لئے حکومت ان پر بےدھڑک ظلم کیے جا رہی ہے۔ اب اپنے جائز حقوق کے تحفظ کی خاطر بجلی کے صارفین کی ایک ایسوسی ایشن کو منظم کرنا بڑی حد تک ناگزیر ہو گیا ہے۔ فوری طور پر صارفین وفاقی محتسب اعلیٰ سے رجوع کر سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے اس منصب پر آج کل ایک نہایت فرض شناس، دیانتدار اور قانون کی پابند شخصیت جناب سید طاہر شہباز فائز ہیں، جو بجلی کے بلوں کے حوالے سے ایک بنیادی اہمیت کا فیصلہ صادر کر سکتے ہیں۔ حالات کے معمول پر آنے تک حکومت کو بجلی کے بلوں میں کم از کم بیس فیصد تخفیف کر دینی چاہئے تاکہ متوسط خاندانوں کو بھی کچھ ریلیف میسر آجائے۔

انہی دنوں ہمارے انتہائی مغرب میں ایک نیا امریکہ دریافت ہو رہا ہے۔ مسٹر ٹرمپ سفید فام امریکی باشندوں کی بالادستی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے اور رعونت بھری ٹویٹس کے ذریعے سیاہ فام امریکیوں کے علاوہ دنیا کی سرکردہ سیاسی شخصیتوں کے دل چھلنی کرتے رہے۔ ان کی فرعونیت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے جرمن کی شیر دل خاتون چانسلر کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے اور فرانسیسی صدر کو ’بوڑھا کھوسٹ‘ کے نام سے پکارا، وہ لندن کے میئر سے بھی الجھ پڑے اور پاکستان کو بھی خوفناک دھمکیاں دیتے رہے۔ سیاہ فام امریکی باشندوں کو ذلت و خواری کی دوزخ میں رکھنے کے لیے انہوں نے سفید فام پولیس کو لامحدود اختیارات تفویض کر دیے تھے۔ طاقت کی اس خرمستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سفید فام پولیس افسر نے مزید چار پولیس افسروں کی موجودگی میں ایک بےقصور سیاہ فام باشندےکی گردن پر اپنا گھٹنا آٹھ منٹ تک دبائے رکھا یہاں تک کہ وہ موت کےمنہ میں چلا گیا۔ اس بہیمانہ قتل کے خلاف امریکہ میں مظاہرے اس قدر شدت اختیار کر گئے تھے کہ صدر ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس کے مورچے میں پناہ لینا پڑی۔ اب نسل پرستی کے خلاف یہ مظاہرے کینیڈا، جرمنی ،فرانس اور برطانیہ کے علاوہ آسٹریلیا تک پھیل گئے ہیں جن میں سفید فام بھی حصہ لے رہے ہیں۔ یوں ایک عالمگیر تحریک اٹھ کھڑی ہوئی ہے جس میں صدر ٹرمپ کا اقتدار بھی ڈوب جائے گا اور رنگ و نسل کے تعصبات پر مبنی نظام بھی قصہ پارینہ بن جائے گا۔ اسلام کے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺنے صدیوں پہلے مساوات، حریت، احترام انسانیت اور عدل و انصاف کےآفاقی تصورات پر ریاستِ مدینہ قائم کی تھی جس کی طرف اب اقوامِ عالم پیش قدمی کرتی دکھائی دیتی ہے۔

تازہ ترین