• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت قہوہ خانوں سے لے کر بالا خانوں تک اور نگار خانوں سے لے کر اختیار خانوں تک، سارے کا سارا قومی مباحثے، لنگر گپ ، تجزیئے اور تبصرے اگر، مگر اور لیکن کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ذکر ہو رہا ہے خانوں کا تو سن لیجئے ایک ایسا خانہ بھی پیدا ہوا ہے جو ہے تو خانہ خالی لیکن اگر وہ فُل ہو گیا؟ تو پھر بڑے بڑے طرّم خان خاک میں مل جائیں گے۔ مگر یہ ہو گا تب جب ووٹر وں کی اکثریت وڈا خان کو چھوڑ کر خالی خان کی طرف جائے گی لیکن یہ ہو گا پو لنگ کے ساتھ ساتھ۔ پولنگ سے پہلے اگر کوئی ایسا ہرکولیس نکل آیا جو سابق ڈکٹیٹر کو چھو سکے ۔ مگر جمشید دستیوں اور ایاز امیروں کو مسل دکھانے والوں تک چیف جسٹس آف پاکستان کے یہ الفاظ بھی نہیں پہنچے کہ کوئی ہے جو ڈکٹیٹر کو پکڑ سکے؟لیکن اگر ریمبو آ گیا تو کیا ہوگا؟اگر الیکشن کا سلسلہ رک گیا تو پھر؟لیکن اس قدر خود مختار عدلیہ اور اس درجہ آزاد میڈیا کی موجودگی میں کوئی الیکشن روک کر دکھائے ۔ مگر پھر بھی اگر ایسا ہوا تو کیا ہو گا ؟ مگر آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے شور شرابے کے نتیجے میں ابھی تک کوئی پیشہ ور قرض کھانے والا بینک ڈیفالٹر یا منی لانڈرنگ کرنے والا یعنی گند سے اٹھائی گئی کرنسی کو قانون کی گنگا میں اشنان دینے والا نہیں پکڑا جا سکا۔ اگر اب بھی کوئی نہ پکڑا گیا تو پھر انصاف پر اعتبار کون کرے گا؟ لیکن انصاف تو اندھا ہوتا ہے اگر سارے مگرمچھ اقتدار کے گڑھے میں،سماج اور ریاست کی موت کا رقص پیش کرنے کے لئے اکٹھے ہو گئے تو کیا ہو گا؟مگر انہیں روکنے والا کون ہے؟ لیکن روکے تو وہ جاتے ہیں جو جاگیرداری ٹھاہ، سرمایہ داری ٹھاہ اور چور بازاری ٹھاہ کے نعرے لگاتے ہیں۔ وڈیروں اور سائیں وڈا کے خادموں کیلئے کبھی بھی کوئی دروازہ بند ہوا ہے تو وہ بتاوٴ؟ لیکن وڈیروں اور جاگیرداروں کے خادم تو آدھے مخدوم ہوتے ہیں مگر ان کے کتوں کا معاشی اسٹیٹس عام آدمی کے بچوں کے اسٹیٹس سے اُتنا ہی اونچا ہوتا ہے جتنا گجرانوالہ کے گندے نالے سے کے ٹو اور کو ہِ ہمالہ۔ مگر وڈیرا سائیں کا کتا خوراک سے فارغ ہو تو تب بھونکتا ہے۔ اگرغریب بولنا چاہے تو جب تک وہ کھمبے پر نہ چڑھ جائے، نہ اس کی کوئی سنتا ہے اور نہ اسے کوئی دیکھتا ہے لیکن وہ کھمبا جس پر چڑھ کر سیاسی کارکن احتجاج کرتے تھے اسے نااتفاقی کا لوہا سمجھ کر قومی تحویل میں لے لیا گیا ہے مگر لاہوریئے زندہ دل ہیں اس لئے اس انتہائی سیاسی کھمبے کی یادگار یا مزار ضرور بنائیں گے لیکن اگر سرکار نے غریبوں کی سیاست کے راستے بند کرنے کیلئے ،طلبہ یونینوں اور لیبر تحریک کے خاتمے کی خاطر گولڈن شیک ہینڈ اور نجکاری جیسا طریقہ نکال لیا تو کیا ہو گا؟ لیکن اگر کھمبا11مئی کے بعد واپس آیا تو پھر اس پر چڑھے گا کون؟ مگر لاہور کے کھمبے کا احتجاجی قد و قامت پاکستان کی فیوڈل سیاست سے برداشت نہ ہوا ۔اگر اسٹیٹس کو کے کارندے کھمبے کی موجودگی کو جمہوریت کے مستقبل اور خدمت کی سیاست کے لئے خطرہ سمجھیں تو پھر جمہوریت کو بیوہ ہونے سے کون بچا سکتا ہے؟ لیکن اس بحث کا اب کیا فائدہ؟ مگر پُرامن کھمبا تو کب کا خودکش دھماکوں میں استعمال ہونے والے بال بیرنگ اور نو کیلی کیلوں میں تبدیل ہو چکا۔ اگر سارا وکالت نامہ کھمبے کی نذر ہو گیا تو کالم کا کیا بنے گا؟ مگر کالم کا ہمیشہ لفافہ بنتا ہے لیکن اسی لئے کالم نویسی اور اخبار نویسی کو بظاہر بدذوق مگر خوش خوراک لوگ لفافہ جرنلزم کہہ دیتے ہیں۔
آج کل جرنلزم بڑے بڑے لفافے چیر پھاڑ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اخبارات کی زیادہ تر سرخیاں ان لفافوں سے برآمد ہونے والے کہیں چونتیس ارب ، کہیں تیرہ ارب اور کہیں ارب ہا ارب کے قرض ہڑپ کرنے والوں یا ڈیفالٹ کرنے والوں کے نام نکل رہے ہیں لیکن اس قدر بڑے قرض خور کون پکڑے گا؟اگر آپ کا خیال ہے کہ ریٹرننگ افسران اور الیکشن کمیشن تو میں آپ کے ساتھ ہوں ۔ لیکن اگر انہیں پکڑنے والے کچھ نہ کر سکے تو میں اور آپ مل کر بھی آہ و زاری کے علاوہ کیا کر لیں گے؟
مگر اس کا جواب کھمبے کے عبرت ناک انجام سے پوچھا جا سکتا ہے۔ انجام سے یاد آیا کہ میراثیوں کا لڑکا فرنگی فوج میں بھرتی ہو ا مگر تیسرے دن بھاگ کر واپس آگیا لیکن جب محلے کے دوستوں نے بھاگنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا۔ میرے پاس دو ہی راستے تھے پہلا محاذ جنگ پر مارا جاتا دوسرے بھاگ کر ایمان بچاتا۔ اگر مارا جا تا تو لاش کے ٹکڑے ہو جاتے۔ اگر لاش سلامت رہتی تو دشمن اس کی ہڈیوں سے کھاد بناتا یا چربی سے صابن ۔اگر صابن بناتا تو بیوٹی سوپ یا کپڑے دھونے والا ۔ اگر کپڑے دھونے والا صابن بنتا تو مجھ پر دشمن ملک کے فوجیوں کی وردیاں دھونے کا الزام لگتا لیکن میں بااصول ہوں اس لئے میں نے دشمن سے مفاہمت کے بجائے باعزت واپسی کا راستہ اختیار کیا۔
کبھی کبھی باعزت واپسی ایسی ہوتی ہے جیسے چند دن پہلے کراچی میں ہو ئی مگر مزید عزت افزائی سے محفوظ رہنے کیلئے بم پروف بنگلہ ، گاڑیاں،سات آٹھ سو ایلیٹ، پولیس سیکورٹی ڈویژن ، کانسٹیبلری رینجرز۔ مگر ڈسٹرکٹ پولیس کے مختلف تھانوں سے بلائے گئے اہلکار اردگرد رکھ کر گھومنا پڑتا ہے۔ اگر اس پر دو چارکروڑماہوارکی معمولی رقم خرچ ہو جائے تو کیا ہوا؟ مگرعامر میر صاحب جیسے نوجوان رپورٹروں کو ان اخراجات پر اعتراض کر کے خواہ مخواہ ”قومی مفاد“اور”ملکی سلامتی “کے خلاف سازشوں کو دعوت ِ عام نہیں دینی چاہئے لیکن جس زرخیز ریاستی انتظام میں این ایچ اے سے فراڈ کرنے والی کمپنی کا ٹھیکیدار وزیر مواصلات بن سکتا ہے اوراین ایچ اے اس کا ماتحت ہو جاتا ہے ۔اگر مذہبی امور، سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت یا پٹرولیم جیسے محکمے،گئی اور گزری ہوئی جمہوریت کے مشیروں کو دےئے جا سکتے ہیں ۔ اگر ریاستی بینک کے حاضر سروس ملازم کے ہاتھوں سے ملک کا خزانہ بال بال بچے لیکن جلیبیوں کی رکھوالی کیلئے گود لئے ہوئے ٹام کیٹ ڈھونڈے جائیں وہاں فلاحی ریاست نہیں بنے گی تو کیا ”کیلا ری پبلک“ تعمیر ہو گی؟ اگر آپ غور سے دیکھیں یا نہ بھی دیکھیں مگر سب کو نظر آ رہا ہے کہ آئین شکن ڈکٹیٹر کے ساتھیوں سمیت ۔لیکن قرض خوروں اور بینک اور ٹیکس ڈیفالٹروں کی ٹرین چھکا چھک کرتی ہوئی شاہراہ ِ دستور کی طرف دوڑ رہی ہے۔ اگرکوئی11مئی سے پہلے اس کے ٹریک میں آگیا تو سمجھا جائے گا کہ وہ غلط وقت پر، غلط جگہ ،غلط طریقے سے کھڑا تھا اس لئے مارا گیا ۔مگر جو ابھی تک مر رہے ہیں ان کی اکثریت ہے لیکن جو مار رہے ہیں ان کا اتحاد ہے۔ اگر اتفاق ہو تو اس میں برکت ہوتی ہے مگر اکثریت میں اختلافات ہوتے ہیں اگر اختلافات بروقت دور نہ کئے جائیں تو پھر”کلین سوئیپ“ کر جانے کا دعویٰ کرنے والے دور دور تک نظر نہیں آتے۔ اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں آپ سے کبھی نہ پوچھتا کہ یہ شعر کس کیلئے کہا گیا ؟لیکن شعرتو سن لیجئے
کوئی کارواں سے ٹوٹا ، کو ئی بدگماں حرم سے
کہ امیرِ کارواں میں ، نہیں خوئے دل نوازی
مگر یہ تو بتائیے کہ اس غیر سیاسی محاورے کاکیا سیاسی مطلب نکلے گا؟
اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت
لیکن ، مدر آف آل دی کرمنل ٹرائلز حاضر ہے ۔ایک زمانہ تھا جب کہا جاتا تھا جو درخت تیز ہوا سے نہیں جھکتا وہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اب لوگ کہتے ہیں جو فتح نہیں ہوتا اسے خرید لو بلکہ ایک خریدو ساتھ میں دوسرا مفت ملے گا لیکن مفت سے یادآیا مفتا مفتی کے سارے اشتہاروں میں چھوٹا سا نوٹ پڑھنا مت بھولئے ۔”شرائط لاگو ہوں گی“۔اگر شرائط طے ہو جائیں ۔مال اچھا ہو تو قیمت نہیں دیکھی جاتی۔ بجلی کی قیمت میں برق رفتاری قدرتی فیکٹر ہے لیکن یہ طے ہے کہ اصل بجلی قدرتی ہے مگر بجلی جب تک گرتی نہیں نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو وہ چار ہزار وولٹ کے تار چھو کر دیکھ لے۔مگر بظاہر لگتا ہے تاروں میں خطرہ نہیں لہٰذا نوٹس پر غصہ آتا ہے جہاں لکھا ہے تار چھونا منع ہے۔مگر آئین کی کتاب میں اب کسی کو بھی چھونا منع نہیں ۔ اگر آپ نے اٹھارہویں ترمیم کے بعد آرٹیکل چھ نہیں پڑھا تو یہاں پڑھ لیں”جو شخص آئین کو سبوتاژ یا غیر موٴثر و معطل کرے یا ایسی کوشش کرے یا اسے سبوتاژ و معطل کرنے کی سازش کرے ۔طاقت کے اظہار یا استعمال کے ذریعے یا دوسرے غیر آئینی ذرائع سے تو وہ ہائی ٹریزن کا مجرم ہو گا۔ جو شخص ایسی کوششوں میں امداد ، معاونت یا تعاون کرے وہ بھی ہائی ٹریزن کا مجرم ہو گا۔ ہائی ٹریزن کے جرم کو تحفظ دینے کا اختیار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت کسی بھی عدا لت کو حاصل نہیں ہے“ لیکن …اگر۔مگر!
تازہ ترین