• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی قارئین نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر پر کافی عرصے سے کچھ لکھا نہیں گیا ہے، پر میں کچھ تحریر کروں لہٰذا آج کا کالم میں ملکی ٹیکسٹائل سیکٹر کی کارکردگی پر لکھ رہا ہوں۔ پنجاب میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اور کراچی میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات، ہڑتالوں اور امن و امان کی ناقص صورتحال کے باعث ملکی معیشت کے سب سے بڑے ٹیکسٹائل سیکٹر کی کارکردگی متاثر ہوئی۔ اس کے علاوہ ایف بی آر نے ٹیکسٹائل جو ایکسپورٹ کے زیرو ریٹڈ سیکٹرز میں سے ایک تھا پر2% سیلز ٹیکس لگادیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ٹیکسٹائل کے مرکز فیصل آباد میں صنعتی پیداوار اور کاروبار جمود کا شکار ہے اور طلب میں کمی کی وجہ سے یارن کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ فیڈریشن میں ایف بی آر کے چیئرمین نے نئے لگائے جانے والے سیلز ٹیکس کو2% سے1% کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس پر اب تک عملدرآمد نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹر غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے جس کا اظہار میں نے TDAP کے وزیر تجارت کے اعزاز میں دیئے گئے الوداعی عشایئے میں فیڈریشن کے صدر، بزنس کمیونٹی کے لیڈرز طارق سعید اور ایس ایم منیر سے بھی کیا کہ فیڈریشن اس مسئلے پر ہنگامی بنیادوں پر ایف بی آر سے بات کرے۔
گزشتہ مالی سال ہماری ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں تقریباً ایک ارب ڈالر کمی آئی تھی لیکن رواں مالی سال اس میں بہتری آئی ہے اور امید ہے کہ ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر مالی سال کے اختتام تک 14/ارب ڈالر کا ہدف حاصل کرلے گا۔ ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ میں بہتری کی وجہ مالی بحران اور مندی سے نکلنے والے یورپ اور امریکہ کے خریداروں کی ریڈی میڈ گارمنٹس، تولئے اور چائنا کی طرف سے کاٹن یارن اور فیبرک کی طلب میں اضافہ ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں مالی سال ہماری ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں اکتوبر میں 10.5%، نومبر میں 23.54%، دسمبر میں 12%، جنوری میں 8.7% اضافہ ہوا جبکہ فروری میں 4% کمی ہوئی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں فروری2012ء میں ہماری ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 1.03 بلین ڈالر تھیں جبکہ اس سال فروری 2013ء میں یہ کم ہوکر991 ملین ڈالر ہوگئیں۔ اسی طرح ملک کی مجموعی ایکسپورٹس جو گزشتہ سال فروری میں 2.1 بلین ڈالر تھیں بھی اس سال فروری میں کم ہوکر 1.835 بلین ڈالر ہوگئیں۔ رواں مالی سال کے پہلے7 مہینوں جولائی سے جنوری 2013ء تک مجموعی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 8.483 بلین ڈالر ہوئی ہیں جبکہ گزشتہ مالی سال اسی دورانئے میں7.96 بلین ڈالر تھیں لیکن ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں یہ اضافہ کم ویلیو ایڈیشن والی مصنوعات میں دیکھا گیا ہے جس میں70% کاٹن یارن چائنا اور ہانگ کانگ کو ایکسپورٹ کیا گیا۔ 2011-12ء میں ہماری یارن کے علاوہ ٹیکسٹائل مصنوعات بیڈویئر، ریڈی میڈ گارمنٹس اور نٹ ویئرکی ایکسپورٹ 9.606 بلین ڈالر تھیں جو ہماری مجموعی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 12.357 بلین ڈالر کا 78% بنتا ہے جس میں سے 78.5% بیڈ ویئر، 83.3% نٹ ویئر اور 79% ریڈی میڈ گارمنٹس صرف امریکہ اور یورپی یونین نے امپورٹ کئے۔
پاکستان بیورو آف اسٹیکس کی رپورٹ کے مطابق اس سال ہماری گارمنٹس ایکسپورٹس میں 12.51% ، تولئے اور نٹ ویئر 18.02%، کاٹن یارن 32.44%، پولیسٹر یارن 31.48%، کاٹن فیبرک 12.16% اور میڈاپس 6.81% میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اسٹاک ایکسچینج میں ٹیکسٹائل کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر نشاط مل کا شیئر 43 روپے سے بڑھ کر 63 روپے، فضل کلاتھ کا 78 روپے سے بڑھ کر 112 روپے اور سورج ٹیکسٹائل کا 39 روپے سے بڑھ کر 64 روپے ہوگیا ہے۔ حال ہی میں کراچی میں امریکی قونصل جنرل میرے گھر پر عشایئے میں تشریف لائے تھے۔ انہوں نے مجھے اور TDAP کے چیف ایگزیکٹو عابد جاوید کو دوستانہ ماحول میں بتایا کہ مستقبل قریب میں امریکہ کا پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کو ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لہٰذا پاکستان کو ٹیکسٹائل کے علاوہ دیگر ڈیوٹی فری مصنوعا ت امریکہ ایکسپورٹ کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں ٹیکسٹائل کے علاوہ دیگر مصنوعات کی ایکسپورٹ 7.4 بلین ڈالر ہوئی ہیں جبکہ گزشتہ سال اسی دورانئے میں یہ 7.1 بلین ڈالر تھی۔
2013ء میں یورپی یونین نے پاکستان کی65 ٹیکسٹائل مصنوعات کو ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی دی ہے جبکہ جنوری 2014ء سے یورپی یونین پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دینے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے تحت پاکستان تمام اشیاء یورپی یونین کو ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کرسکے گا لہٰذا آنے والے وقت میں یورپی یونین پاکستانی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس کا مرکز نظر آتا ہے۔ پاکستان چائنا کے ساتھ فری تجارتی معاہدے (FTA) کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے جس میں دونوں ممالک کی طرف سے ٹیکسٹائل مصنوعات سمیت دیگر سیکڑوں مصنوعات کو ڈیوٹی فری کردیا جائے گا۔ چائنا پیداواری لاگت بالخصوص اجرتوں میں20% سالانہ اضافے کی وجہ سے ٹیکسٹائل کی کچھ مصنوعات میں غیر مقابلاتی ہورہا ہے اور اب چائنا کاٹن یارن اور فیبرک مقامی طور پر بنانے کے بجائے پاکستان اور دیگر ممالک سے امپورٹ کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔
اگر اسی طرح چائنا میں پیداواری لاگت اور اجرتوں میں اضافہ ہوتا رہا تو آئندہ چند سالوں میں پاکستان کو چائنا کی ٹیکسٹائل مارکیٹ کا ایک حصہ مل سکتا ہے جس کیلئے ابھی سے ہمیں اپنی صنعتوں کی پیداواری استعداد، کوالٹی اور مارکیٹنگ کو بہتر بنانا ہوگا کیونکہ بنگلہ دیش، انڈیا اور ویتنام بھی چائنا کی اس ٹیکسٹائل مارکیٹ کے حصے کو لینے کیلئے کوشاں ہیں۔پاکستان دنیا میں چوتھا بڑا کاٹن پیدا کرنے والا ملک ہے لیکن ابھی تک 13 ملین بیلز سالانہ پیداوار سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے جبکہ انڈیا نے بی ٹی کاٹن کے استعمال سے گزشتہ چند سالوں میں اپنی کاٹن کی پیداوار18 ملین بیلز سے بڑھاکر32 ملین بیلز کر لی ہے اور آج پاکستان کے ٹیکسٹائل ملز اپنی کاٹن کی ضروریات پوری کرنے کیلئے انڈیا سے واہگہ بارڈرز کے ذریعے خام کاٹن امپورٹ کررہے ہیں۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کو بڑھانے کیلئے پاکستان ٹیکسٹائل پالیسی2009-14ء میں کئی ترغیبات اور مراعات کا اعلان کیا گیا تھا لیکن5 سالہ پالیسی میں پہلے2 سال کے بعد وزارت خزانہ نے زیادہ تر ترغیبات اور مراعات کیلئے فنڈز جاری نہ کئے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل صنعت مطلوبہ ایکسپورٹ گروتھ حاصل نہ کرسکی اور آج بھی ہم 13/اور 14 بلین ڈالر سالانہ ایکسپورٹس سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں جبکہ بنگلہ دیش جو کاٹن یارن اور فیبرک دوسرے ممالک سے امپورٹ کرتا ہے کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس ہم سے زیادہ ہیں۔ پاکستان کی3 سالہ تجارتی پالیسی 2012-15ء میں آنے والے3 سالوں میں پاکستان کی ایکسپورٹس کا ہدف95 بلین ڈالر رکھا گیا ہے جو موجودہ حالات میں ناممکن نظر آتا ہے۔ ہمیں اپنی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے کاٹن یارن اور خام فیبرک کم قیمت پر ایکسپورٹ کرنے کے بجائے ٹیکسٹائل کی ویلیو ایڈیڈ مصنوعات کی ایکسپورٹ کو بڑھانا ہوگا اور ہمیں چائنا، امریکہ اور یورپی یونین کے علاوہ انڈونیشیا، ویتنام، ترکی، روس لاطینی امریکہ اور شمالی افریقہ جیسی بڑی مارکیٹوں پر بھی توجہ دینا ہوگی لیکن میں امید کرتا ہوں کہ آنے والے سالوں میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ میں کمی اور امن و امان کی بہتر صورتحال کے باعث ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر بہتر کارکردگی دے سکے گا۔
تازہ ترین