• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں ایک طویل عرصہ سے یہی لکھتا آرہا ہوں کہ” اگر“ الیکشن ہوئے تو تحریک انصاف کا سونامی زر اور شرکی طاقتوں کو بہا لے جائے گا۔کل یہی جملہ جب میں نے اسلام آباد کی ایک تقریب میں کہا توکوئی دل جلا بول پڑا، کہنے لگا ”اگر ہوئے تو“ کو چھوڑئیے ”مگر ہو رہے ہیں کہئے“۔ بے شک الیکشن ہو رہے ہیں اور میری یہی دعا ہے کہ خیر خیریت سے پاکستانی قوم انتخابات کے اس عرصہٴ انتقال سے گزر جائے ”مگر “ یہ اسی دل جلے والا ” مگر “ لگتا نہیں۔چلئے اسی پر بات کر لیتے ہیں کہ مجھے کیوں یہ الیکشن کا رکشہ ماڈل ٹاؤن پہنچتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ سچ تو یہ ہے کہ بظاہر کوئی ایسی دلیل میرے پاس موجود نہیں جس کی بنیاد پر میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکوں کہ انتخابات11 مئی کو نہیں ہوں گے۔ ان کیلئے کسی نئی تاریخ کا تعین ضروری ہے یعنی الیکشن ملتوی ہونے کی بات کا تعلق حقیقت سے نہیں وجدان سے ہے اور اس نو وجد انی کیفیت پر میری بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ اپنے کچھ دوست امیدواروں کی الیکشن مہم میں حصہ لینے کیلئے برطانیہ سے پاکستان پہنچ گیا ہوں مگر وجدان کہے جا رہا ہے کہ مجھے تو الیکشن ہوتے ہوئے نہیں دکھائی دیتے۔ گزشتہ روز الطاف حسین نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن کی تاریخ ایک ماہ بڑھا دی جائے تو وجدان نے کہا کہ یہ الیکشن11 مئی کو نہیں ہو سکتے۔ ویسے الیکشن کمیشن کو اس بات کا احساس تو ہونا چاہئے کہ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے بعد11 مئی کو الیکشن کرائے جا سکتے ہیں اور اگر کرائے گئے تو وہ ایم کیو ایم کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد امیدواروں کو اپنے حلقوں کو سمجھنے کے لئے کچھ وقت تو ملنا چاہئے۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن11 مئی کو نہیں ہوتے تو نگران حکومت کے دورانیہ کا کیا ہوگا۔ یقینی بات ہے کہ وہ خود بخود بڑھ جائے گا مگر اس معاملے میں میرا وجدان میرا ساتھ دینے سے انکار کر رہا ہے، خدا خیر کرے۔
الیکشن ملتوی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ دو سو سے زائد سیاسی امیدوار جنہیں نااہل قرار دیا جا چکا ہے یا نااہل قرار دیا جائے گا انہیں اس سلسلے میں عدالت میں جانے کا پورا حق ملے۔اب یہ کوئی زیادہ مثبت بات نہیں کہ جس کے کاغذات مسترد کئے گئے ہیں انہیں بڑی عدالتوں تک پہنچنے کیلئے وقت نہ فراہم کیا جائے پھر اس بات کی بھی تحقیق ہونی چاہئے کہ ایک ادارہ ،نیب جیسا ملکی سطح کا آخری ادارہ ایک دن نواز شریف کو ڈیفالٹر قرار دیتا ہے اور پھر دوسرے دن انہیں کلیئر کر دیتا ہے۔ زر اور شر کے تعاون سے یہ جو اس طرح کے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں یہ مسلسل انتخابات کی حیثیت متنازع بناتے چلے جا رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے احتساب کمیشن کا احتساب کون کرے ،کون پوچھے گا کہ نیب والوں سے کہ ایک دن پہلے شریف برادران اربوں کے ڈیفالٹر تھے۔صدر ہاؤس سے آنے والی ایک ٹیلی فون کال پر کس طرح صاف شفاف قرار دے دیئے گئے ۔انتخابات کی حتمی تاریخ کے متعلق تو الیکشن کمیشن کے چیئرمین بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ پائے ۔کسی تقریب میں نجم سیٹھی سے پوچھتے پھرتے تھے کہ الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں ۔ اگر نجم سیٹھی کی جگہ میں ہوتا تو انہیں صاف صاف کہہ دیتا کہ جس عمر میں آپ یا آپ کا وزیراعظم ہے اس عمر میں تخلیقی صلاحیتیں بہت کم ہو جاتی ہیں، اس لئے آپ کی موجودگی میں نئی حکومت کی تخلیق ممکن نہیں لگتی۔ ہاں اس کے بعد کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ نگران حکومتوں کو بہت کم وقت ملے۔ انہوں نے آخری سانس تک اپنی حکومتیں برقرار رکھیں بلکہ آخری چھٹی کے دن کو بھی کام کیا کہ کہیں کوئی لمحہ مال کشید کرنے سے رہ نہ جائے اور ان حکومتوں کو حکومت کی اتنی ہوس تھی کہ ایک دن پہلے صرف اس لئے حکومت ختم نہیں کی کہ کہیں نگران حکومت کا دورانیہ تین ماہ نہ ہو جائے اور ان کے آئندہ آنے والے اقتدار کے دنوں میں کمی نہ ہو جائے۔ آئینی طور پر اگر حکومت ایک دن پہلے ختم کی جا تی تو نگران حکومت کا دورانیہ تین ماہ ہوتا وگرنہ دو ماہ۔ ان دو ماہ میں سے ایک ہفتہ تو سب سے بوڑھے وزیراعظم کی تلاش میں گزار دیا گیاباقی سات ہفتوں کی حکومت ہے ابھی تو اس حکومت نے سوائے الیکشن کمیشن کا تماشا دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔
میرا وجدان یہی کہہ رہا ہے کہ الیکشن ہوں یا نہ ہوں اس نگران حکومت کا اپنے وقت پر ضرور خاتمہ بالخیر ہوگا،خاتمہ بالشر بھی ہو سکتا ہے اور خاتمہ بالزر بھی۔ یہ نگران حکومت بھی کیا عجیب حکومت ہے کہ تمام لوگ صدر زرداری کے متعلقہ بھی ہیں اور نواز شریف نے بھی انہیں بڑی خوش دلی سے قبول کیا ہے۔ مجھے تو نہیں پتہ چل رہا ہے کہ کس پارٹی کا مقابلہ کس سے ہے ۔کون کس لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہا ہے اورکس لیگ کے لئے راہ ہموار کر رہا ہے۔ واضح طور پر دکھائی دینے والی پارٹی صرف تحریک انصاف ہے۔ سو میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر الیکشن ہوئے تو آئندہ حکومت تحریک انصاف کی ہوگی۔ یہ جعلی ڈگریوں والے، یہ بنکوں کے ڈیفالٹر، یہ کرپشن کی عظیم الشان سلطنت کے وارث اس مرتبہ یقینا اپنے انجام تک پہنچ جائیں گے۔ اس انجام تک جس کے انتظار میں پاکستان کے غریب عوام کی آنکھیں پتھرا چکی ہیں۔ غربیوں کا انتظار ختم ہونے والا ہے،تبدیلی آنے والی ہے اور یہ کسی ایجنسی کی رپورٹ نہیں، کوئی حالات و واقعات کا تجزیہ بھی نہیں۔ یہ بات مجھے میرا وجدان کہہ رہا ہے۔آپ اس وجدان کا کوئی نام بھی رکھ سکتے ہیں۔
تازہ ترین