• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گھر نہ چاہے ہمیں میسر ہو
چھت کی خاطر مکان رکھنا ہے
پھر شہر سے تیرے گزرنا ہے
اور سلامت بھی جان رکھنا ہے
الیکشن کے امیدواروں کے کاغذات کی اسکروٹنی نے عدالتوں میں امیدواروں اور ان کے حامیوں کی ریل پیل کر دی ہے۔ اس دفعہ نامزدگی کا فارم پچھلے سالوں سے مختلف ہے۔ اگرچہ اس میں بی اے کی ڈگری کی کوئی شرط نہیں ہے لیکن دوسری معلومات جو حاصل کی گئی ہیں وہ امیدواروں کو چکرانے کے لئے کافی ہیں۔ زیادہ تر امیدواروں کے لئے پچھلے تین سال کا انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا مسئلہ بڑا گمبھیر تھا کیونکہ ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق امیدواروں کی بڑی تعداد کے این ٹی این نمبر ہی نہیں ہیں۔ آپ یقین کریں میں نے کچھ امیدواروں کے کاغذات دیکھے انہوں نے اپنے نام پر گاڑی کی قیمت8 سے10 لاکھ لکھی ہوئی ہے جبکہ وہ عدالت میں آئے تو ڈیڑھ کروڑ کی لینڈ کروزر سے اترے۔ اب اللہ جانے لینڈ کروز کس کے نام پر رجسٹر ہے۔ اچھا ہوا کہ الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپر میں خالی خانہ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خالی خانے پر مجھے سردار جی کا ایک پرانہ لطیفہ یاد آیا۔ سردار جی نے ایک بہت بڑا بنگلہ بنایا اور اس میں تین سوئمنگ پول بنائے، ایک ٹھنڈے پانی کا، دوسرا گرم پانی کا اور تیسرا خالی۔ لوگوں نے پوچھا سردار جی یہ خالی پول کیوں بنایا ہے۔ سردار جی نے کہا کہ کبھی نہانے کا جی نہیں بھی چاہتا تو اس کے لئے خالی پول بنا دیا ہے۔ ہم نے بھی بیلٹ پیپر میں خالی خانہ رکھنے کا سوچا تھا مگر شاید پھر کسی عقلمند نے مشورہ دے دیا اور اب سنا ہے کہ خالی خانہ نہیں ہو گا۔ ریٹرننگ افسروں کے امیدواروں سے مضحکہ خیز سوالات لوگوں نے میڈیا پر دیکھے اور سنے۔ اب لاہور ہائی کورٹ نے انہیں بھی فضول سوال پوچھنے سے منع کر دیا ہے مگر اب کافی دیر ہو چکی ہے اور تقریباً 80 فیصد کام تو ختم ہو گیا ہے، جو مذاق بننا تھا بن گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ سوالات صادق اور امین کا تعین کرنے کے لئے کئے جا رہے تھے، مگر صادق اور امین ہونے کے لئے دعائے قنوت یا نماز جنازہ کا زبانی یاد ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایک ہندو، عیسائی یا پارسی بھی انتہائی سچا اور ایماندار ہو سکتا۔ نوجوان ایڈیشنل جج صاحب اور سینئر سول جج صاحبان نے اس طرح کے غیر ضروری سوالات پوچھ کر خود کو خواہ مخواہ میڈیا کے لئے مضحکہ خیز بنایا اور چاروں طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہو گئی اور غیر ضروری طور پر تنقید کا نشانہ بنے جس پر مجھے افسوس ہے۔ بہرحال سنا ہے کہ اب ان سوالات کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ بقول غالب
کی میرے قتل کے بعد، اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
حیف، اس چارگرہ کپڑے کی قسمت غالب
جس کی قسمت میں ہو عاشق کر گریباں ہونا
جعلی ڈگریوں کے فیصلوں نے بڑے بڑے سورماؤں کو آبدیدہ کر دیا۔ جعلی ڈگریوں کے حامل افراد کو دی جانے والی سزاؤں کا عوام نے خیر مقدم کیا ہے، مگر جو ابھی تک بچے ہوئے ہیں ان کے فیصلوں کو سننے کے لئے عوام میں سخت بے قراری پائی جاتی ہے۔ میرے خیال میں ان کی سزاؤں کے ساتھ ساتھ تفتیش کا دائرہ وسیع کر کے ان لوگوں کو بھی گرفتار کیا جائے جنہوں نے یہ ڈگریاں بنا کر دی ہیں اور سرکاری ریکارڈ میں رد و بدل کیا ہے تاکہ مرض کو جڑ سے پکڑا جا سکے اور مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچایا جا سکے۔ اس طرح دباؤ میں آ کر یا پیسے کے لالچ میں غلط کام کرنے والے سرکاری ملازمین کا مواخذہ ہو گا اور وہ اور ان کے ساتھی نصیحت حاصل کریں گے اور آئندہ احتیاط سے کام لیں گے۔ اگرچہ ریٹرننگ افسروں پر میڈیا میں تنقید کا سلسلہ جاری ہے لیکن میرے خیال میں مجموعی طور پر ہمارے سیشن جج صاحبان اور ان کے ساتھی ایڈیشنل سیشن ججز اور سینئر سول ججز بہت محنت اور جانفشانی سے ایماندار اور غیر جانبداری سے کام کر رہے ہیں۔ میری میڈیا سے گزارش ہے کہ ان کے اچھے کاموں کو بھی ہائی لائٹ کریں۔ اس طرح محنت کرنے والے شخص کا حوصلہ بڑھتا ہے اور جب اس کے کام کی تعریف ہوتی ہے تو وہ اور زیادہ محنت اور تندہی سے کام کرتا ہے۔ بڑے بڑے نامور سیاستدانوں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کی خبروں نے عوام میں الیکشن کے حوالے سے دلچسپی بڑھا دی ہے کیونکہ ہمارے لوگ اب بریکنگ نیوز سننے کے عادی ہو گئے ہیں اور اگر تھوڑی دیر تک بریکنگ نیوز نہ ملے تو نیند آنے لگتی ہے اور لوگ ٹی وی بند کر کے سو جاتے ہیں۔ آج کل ٹاک شو والوں کا دھندہ مندا پڑ گیا ہے کیونکہ لوگ فی الحال اصلی خبروں سے محظوظ ہو رہے ہیں۔کچھ دنوں کے بعد شاید ٹاک شو والوں کی باری دوبارہ آئے گی۔ فی الحال تو ان کے تمام تجزیات اور خدشات جو الیکشن سے متعلق تھے، دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ الیکشن ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے اگرچہ اسے 10 یا پندرہ روز ملتوی کرنے کا مطالبہ سامنے آیا ہے مگر اس کے ہونے کے بارے میں فی الحال کوئی خدشات نظر نہیں آ رہے۔ کام تیزی سے مکمل ہو رہا ہے۔ بڑی پارٹیوں میں ٹکٹوں کی تقسیم پر جھگڑے ہو رہے ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ جتنی بڑی پارٹی ہوتی ہے، سب لوگوں کو خوش رکھنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض ضرور ہوں گے مگر اس سے سیاسی پارٹی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ناراض ہونے والا رکن سین سے ہٹ جائے گا اور اگر آزاد امیدوار کی حیثیت سے اپنی ہی پارٹی کے خلاف لڑے گا تو یا تو اپنی حیثیت منوا لے گا یا پھر ہمیشہ کے لئے فارغ ہو جائے گا۔ یہ تو ایک جُوا ہے اور کہتے ہیں کہ جُوا کسی کا نہ ہوا۔ جن لوگوں نے اپنی پارٹیوں کے لئے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور اس موقع پر ان کو صرف ان کی مالی حیثیت کمزور ہونے کی وجہ سے نظر انداز کیا جا رہا ہے تو یہ بڑے ظلم کی بات ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اس موقع پر فیض کا ایک شعر پیش کرتا ہوں جو حسب حال ہے
مشکل ہیں اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جان دے آئیں
دل والو کوچہ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
تازہ ترین