• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا ٹائمز میں کوئی بجٹ میزانیے پیش کرے بھی تو کیسے؟ آمدنی کا کوئی پتا، نہ اخراجات پہ کنٹرول۔ گنجی نہائے گی کیا، نچوڑے گی کیا؟ ایسے میں حُسنِ کارکردگی کے تمغے سجانا مضحکہ انگیز نہیں تو کیا ہے۔

انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کورونا زدہ معیشت کے مریض کے آئی ایم ایف کے مقررہ کردہ اتائیوں کے ہاتھوں بچ نکلنے کی خوش فہمی کی تحسین کوئی کیسے کرے؟ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا لیکن 200ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کو چھپاتے ہوئے۔

بھلا کوئی پوچھے وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر سے کہ جاتے برس تو آپ چار بار ٹارگٹ کم کرتے ہوئے بمشکل 4کھرب روپے سے کم ٹیکس جمع کر پائے تھے، آئندہ سال 5 کھرب کے ٹیکس یعنی ایک کھرب روپے زیادہ کونسی سونے کی کان سے نکال پائیں گے؟ جاری مالی سال میں تو مجموعی قومی آمدنی کی نمو منفی رہی، اگلے برس یہ کیسے 2.6 فیصد کے قریب پھلانگ پائے گی، اگر ہم نے 10 ارب درختوں کی سونامی والی گنتی نہیں کرنی تو۔

آئی ایم ایف کے دبائو پر آپ نے بجٹ خسارہ 7فیصد تو ظاہر کیا ہے، لیکن یہ 9فیصد سے اوپر ہی جائے گا۔ آمدنی ہے کہ بڑھنے سے رہی، لیکن خرچے ہیں کہ کم ہونے کو نہیں۔ اگرچہ قرضوں کے اصل زر پہ G-20ممالک سے سال کی چھوٹ مل گئی، پھر بھی اس پر 3کھرب روپے اُٹھنے ہیں۔

دفاع پر بھی گزشتہ برس سے 11.9 فیصد زیادہ خرچہ ہونا ہے۔ 1.3 کھرب کے علاوہ 323ارب افواج کے ترقیاتی کام اور 93ارب دیگر سلامتی کے امور پہ صرف ہوں گے۔

سب ملا کر یہ 2 کھرب تک جا پہنچے گا اور اس میں پنشنز کا بل شامل نہیں۔ رہا کرنٹ اکائونٹ بمعہ تجارتی خسارہ، بیرونِ ملک پاکستانیوں کی آمدنیاں کم ہونے اور برآمدات کے نہ بڑھنے سے یہ کہاں جا کے ٹھہرے گا، کوئی ہمیں بتلائے تو کیا؟ غریبوں کی اشک شوئی پہ اگر محض  231ارب مختص کیے گئے ہیں تو گزشتہ دو برسوں میں ’’تبدیلی والوں‘‘ کی حکومت نے اُمرا کو 2.12 کھرب روپے کی ٹیکس رعایات دی ہیں جبکہ اس پیسے سے ریلوے کے دو ML-1منصوبے اور بھاشا ڈیم بھی بن سکتا تھا۔

معاشی بدحالی کے حالات میں کم از کم نچلے درجے کے ملازمین کی تنخواہیں تو بڑھنی چاہئے تھیں اور مزدوروں کی کم از کم اُجرت 35 ہزار روپے تک بڑھائی جانے چاہیے تھی۔ لیکن غریبوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ انصاف والوں کے ہاتھوں تو دو برس میں معیشت کی بڑی درگت ہوئی۔

گزشتہ برس معاشی نمو 1.9فیصد اور اس برس منفی 0.5 فیصد۔ لوٹے ہوئے 200ارب ڈالرز تو واپس احمق ہی لا رہے تھے، اُلٹا کل قرض 40کھرب روپے اور مجموعی قومی آمدنی سے تجاوز کر گیا اور فقط دو برسوں میں۔

بجٹ پر زیادہ سر کھپانے اور ٹیلی وژن پر ماہرین کی لن ترانیوں پہ سر دھننے کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہ مقتدر فریضہ تو آئی ایم ایف کے پاس رہن ہے۔ آئی ایم ایف کے نیولبرل یا مالیاتی (Monetary) و مالی (Fiscal) کِرم خوردہ نسخوں کے پاس نہ تو پہلے ترقی کا کوئی نسخہ تھا اور نہ اب کورونا کے حالات میں ان کے نسخوں کو ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی اہمیت دیتا ہے۔ اس کا کہیں چلن ہے تو دست نگر ممالک میں۔

غیرمنصفانہ عالمی نظام سرمایہ کی طرح کورونا کے مضر اثرات بھی غیرمساویانہ ہیں۔ کورونا کی وبا اور دیگر وبائوں کا پھیلائو بھی منطقی نتیجہ ہے قدرت کے ذرائع کے بے رحمانہ استحصال کا اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے زراعت و خوراک اور صنعت و کاروبار کے ہاتھوں حیاتیاتی، ماحولیاتی اور قدرتی ذرائع کا تباہ کُن استعمال ہے۔

دُنیا کی تباہی کے لیے بڑی کارپوریشنوں کے مفاد میں تو ہر طرح کے کیمیائی، جراثیمی، نباتاتی، حیاتیاتی اور نیوکلیائی تحقیقات و ایجادات کی دوڑ لگی رہی ہے لیکن انسانی سلامتی، خوراک کی سلامتی، صحتِ عامہ، ماحولیات کے تحفظ اور براہِ راست پیداوار کرنے اور تخلیق کاروں کی فلاح کو نظرانداز کیا گیا۔ کورونا سے زیادہ تر اموات بھی بچھڑے ہوئے طبقوں اور نسلیاتی گروہوں میں ہو رہی ہیں۔

عالمگیریت یعنی گلوبلائزیشن کے تحت پورا ترقی یافتہ شمال اور ترقی پذیر جنوب پیداواری اور تبادلے کی گو نا گوں رسد کی زنجیروں (سپلائی چین) میں جُڑ گیا ہے۔ جنوب کے محنت کشوں کی سستی محنت کے بدترین استحصال سے پیداکردہ سستی اشیا شمال کی ترقی یافتہ منڈیوں میں اُن کی قیمتوں پر بکتی ہیں۔ اور عدم مساوی شرائطِ تجارت کے تحت جہاں ترقی پذیر ممالک کی معاشی نمو رُکی رہ جاتی ہے۔

وہاں شمال کی دولت بڑھتی جاتی ہے۔ چونکہ کورونا نے اس استحصالی سپلائی کی زنجیر کو توڑ دیا ہے، لہٰذا آئی ایم ایف کی شرائط کا تقاضا ہے کہ ترقی پذیر معیشتیں جیسے کیسے قرض کی ادائیگی کرتی رہیں اور لاک ڈائون کے ذریعہ زندگیوں کو بچانے کی بجائے، صنعت کا پہیہ چلتا رہے تاکہ شمال یعنی ترقی یافتہ ممالک کو سستی اشیا کی فراہمی جاری رہے۔

اب کشکول کو غیرت سے جھٹکنے والی بے پر کی (Hybrid) حکومت کرے بھی تو کیا، ماسوا قرض پہ قرض لینے کے۔ کم نہ ہونے والے غیرپیداواری اخراجات اور کم ہوتی آمدنی کا تفاوت بڑھکوں سے تو کم ہونے سے رہا، اور نہ ہی اعداد و شمار کی چالاکیوں سے۔ پاکستان کے بالادست جدید نوآبادیاتی نوکرشاہانہ ڈھانچوں اور مفت خور اُمرا اور ہرسو پھیلتی مافیائوں کے ہوتے ہوئے ہوا میں معلق حکومتیں کریں بھی تو کیا، سوائےملامت کا بوجھ اُٹھانے کے۔

دست نگری کی معیشتوں میں ویسے بھی جان نہیں ہوتی، کسادبازاری کا ایک تھپیڑا ہی قومی حمیت کے ہوائی قلعوں کو زمین بوس کر دیتا ہے۔ اوپر سے معاشی اتائیوں کی کمی نہیں جو جانے کہاں کہاں سے ’’خدمت‘‘ انجام دینے کو پردئہ غیب سے نازل ہو جاتے ہیں۔

اور ہمارے سادہ لوح اور بے بس بھائی لوگ بھی اُن کے نہ سمجھ میں آنے والے اعداد کے چکروں میں چکرا کے رہ جاتے ہیں۔ عرض صرف اتنی ہے کہ اصل پیداواری زرعی و صنعتی مضبوط بنیاد، تربیت یافتہ پیداواری محنت کش طبقات اور منصفانہ مالیاتی و معاشی نظام لائے بنا ایک پائیدار شراکتی معاشی بنیاد تشکیل نہیں پا سکتی۔

اسی طرح امیروں پہ ٹیکس لگانے اور غریبوں پہ خرچ کیے بنا اور صحتِ عامہ، تعلیم اور انسانی سلامتی کو اولیت دیئے بنا ایک صحت مند معاشرہ وجود میں آنے سے رہا۔

باقی سب ڈرامہ بازیاں ہیں تاکہ مافیائوں، امیروں اور طاقتوروں کی موجیں لگی رہیں، بھلے کتنے ہی لوگ بھوک اور کورونا ایسی وبائوں کے ہاتھوں مرتے رہیں۔لیکن آخر کب تک؟

تازہ ترین